کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 213
(131)ٹیلی ویژن کا حکم
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
ٹیلی ویژن اوراسلامی فلموں کاکیا حکم ہے؟کیا ہم تعلیم کی غرض سےیہ استعمال کرسکتے ہیں اورکیا ٹیلی ویژن تصویرمیں داخل ہے؟
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ!
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
یہ اس وقت کی بڑی عجیب بات ہے کہ ہم فلموں کانام سنتےہیں کہ یہ اسلامی فلمیں ہیں کہ یہ اسلامی اشتراکیت یااسلامی جمہوریت ہے،مجھے ابھی تک کوئی شخص ایسانہیں ملاکہ جومجھے اس بارہ میں سمجھائے کہ ان کے یہ اسلامی نام کیونکررکھے گئےہیں،یہ نظریات اوراصطلاحات جویہودی ہیں یہ کیوں ہمارے اندرآئے ہیں۔آسمان زمین سےکہاں ہے یہ کہاں ہے۔کیاتعلق ہے ان کا اس دین کے ساتھ جودین منزل من اللہ ہے،
یہ باطل نظریات اورخودساختہ الفاظ واصطلاحات جواہل الاھواء البدع کی پیداورہیں،کیاہم میں ایک بھی ایساصاحب بصیرت آدمی نہیں کہ جوان اشیاء کی گہرائی میں جاکرسوچے،کیاکوئی یہ بات واضح کرسکتا ہے کہ جولوگ غیرممالک میں رہتے ہیں،وہ یہ فلمیں وغیرہ تعلیم وتربیت کے لیے استعمال کرتے ہیں،کوئی بھی یہ ثابت نہیں کرسکتا،کیونکہ ان لوگوں کااس سےمقصد صرف اورصرف انہیں دیکھ کرانسانی جواہرکاضیاع اوراخلاق کی بربادی اورفحاشی کے اندھیرے کنویں میں دھکیلناہے۔یہ صرف لغوکھیل اوران کی بری تسکین اورنفسانی خواہش کی تکمیل کاایک ذریعہ ہیں۔ان سےان کا مقصد صرف یہ ہے کہ کچھ وقت دنیاوی امورسےچھٹکاراپاکراپنی توجہ دوسری طرف مبذول کرنا ہے،تویہ اشیاء وہ صرف اورصرف ان مقاصدکے لیےاستعمال کرتے ہیں نہ کہ ان کا اس سے مقصد کوئی تعلیم وتربیت ہے اورآج کل جتنی بھی فلمیں بنائی جاتی ہیں،وہ صرف اورصرف اخلاق کو تباہ کرنے والی ہیں اورخاندانی نظام کوتباہ کرنے والی ہیں کیونکہ جب ایک عورت اسےدیکھتی ہے اورپردہ اسکرین پرجودیکھتی ہےپھرعام زندگی وہ اپنے آپ کو ویساتصورکرتی ہے جس سےبالآخرزناتک سرزدہوجاتا ہےاورکتنے ہی شریف لوگ ایسے ہیں جوچور،ڈاکوبن جاتے ہیں جس کا سبب بھی بعض اوقات یہی پردہ اسکرین پر چلنے والی فلم ہوتی ہے کہ وہ عام زندگی میں اپنے آپ کو ویساتصورکرتا ہے اورپھروہ سب کرگزرتاہےجودیکھتاہےافسوس ہے آج کل کےعلماء کرام پر جو ان اشیاء کےتھوڑے سے فائدے کودیکھتے ہوئےجوازکافتوی دےدیتےہیں اگرنہیں جائز منفعت کے لیے استعمال کیاجائے توٹھیک ہے،حالانکہ حقیقت میں یہ فوائدکچھ بھی نہیں ۔کیونکہ اس دنیا میں جوبھی اشیاء وہ نفع اورنقصان دونوں کو شامل ہیں،ہم اس میں موازنہ کریں کہ ان میں نفع کتنا ہے اورنقصان کتنا ہے اگران میں نقصان کی بہ نسبت نفع زیادہ ہے توہم پھراسے جائزکہہ سکتے ہیں۔
لیکن جب اس کانقصان اس کے نفع سےبڑا ہوتوہم اسے کیسے فائدہ مند کہہ سکتے ہیں
((واثمہااکبرمن نفعہما)) کہ ان کاگناہ ان کے نفع سے بڑاہے۔یعنی شراب اورجوئے کا۔تویہاں بھی ان فلموں اورپردہ اسکرین کانقصان ان کے نفع سےکئی گنابڑاہے۔توایک عاقل انسان کے لیے یہی لائق ہے کہ ان سے بچے۔یہ اشیاء اخلاق اورجوہرانسانی کوتباہ کرنے والی ہیں اوریہ تمام اشیاء یہودکے ہاتھوں میں ہیں اوروہ اہل اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں اوریہ بات قرآن سے ثابت ہے،میں نے ایک انگریزی کتاب جس کامصنف بھی انگریز ہی تھاکامطالعہ کیا جس میں یہودکی میٹنگ کاتذکرہ تھااوران میٹنگز میں جوقراردادیں پاس ہوئیں ان کاتذکرہ تھا،ان اسلام اورمسلمانوں کے دشمنوں نے یہ بات اس میں بڑی واضح اورصراحت کے ساتھ کہی کہ یہ انسان جس کویہ اپنے لیے ایک تفریح کاذریعہ سمجھتاہےانہیں ان مسلمانوں میں عام کردوتاکہ ان کے اخلاق بربادہوجائیں اوریہ لوگ افراط وتفریط کاشکارہوجائیں،توبتائیں ان یہودیوں کی بات پریقین کریں یااپنوں کی۔
فصل:.....پھریہ بات کہی جاتی ہے کہ فلم یہ ایک متحرک تصویر ہے جوپردہ اسکرین پردیکھی جاتی ہے ،جاندارکی تصویرحرام ہے جس کے بارہ میں بےشماراحادیث واردہوئیں ہیں جوتواترکی حدکوپہنچ جاتی ہیں کئی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سےیہ مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاندارکی تصویربنانے سےمنع فرمایاہےاورجوایساکرتا ہے اس پرلعنت فرمائی ہےاورساتھ میں یہ بھی فرمایاکہ تصویربنانے والے اللہ کی مخلوق میں سے بدترین لوگ ہیں جنہیں قیامت کے دن یہ کہاجائے گا کہ جوتصویریں تم بنایاکرتے تھےآج ان میں جان ڈالواوروہ اس سے قاصر ہوں گےاورانہیں سخت عذاب دیاجائے گااوریہ عمل کبیرہ تباہ کرنے والاگناہ ہے اگرچہ یہ آج پورے عالم اسلام میں بھی پھیلاہواہے۔مجھے توسمجھ نہیں آتی کہ مسلمانوں کےدل اس چیزپرکیسے راضی ہوگئےتوجوحرام ہےاورشیطان کی رضامندی کاسبب ہےاوراللہ تعالی کےغضب کودعوت دینے والی ہےاورپھرافسوس یہ کہ ہم ان کانام رکھتے ہیں۔‘‘اسلامی’’افسوس ہےمسلمانوں پراوران کے ایسے اسلام پر’’اورپھرمزیدسونے پہ سہاگاکہ جب انہیں اس کام سےروکاجائے توجواب دیتے ہیں کہ یہ کام توفلاں عالم فاضل کرتے ہیں اورفلاں فلاں ملک میں یہ رائج ہے وہ ممالک کہ جنہیں ہم اسلامی ملک کہتے ہیں،کتنی عجیب بات ہے ۔کیا ہم کسی ایک ملک کے ساتھ خاص ہیں؟یاکیا ہم کسی خاص عالم فاضل پرایمان لائے ہیں؟بلکہ ہماراایمان تواللہ اوراس کے رسول پر ہے اورانہی کی اتباع کرناہم پر لازم وملزوم ہے اگر ساری دنیا ایک چیز کو مل کرحلال یا حرام کرنا چاہیں توبھی وہ اس کو حلال یا حرام نہیں کرسکتی جب تک کہ اللہ یا اس کے پیغمبرجناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کوحلال وحرام قرارنہ دےدیں۔کیونکہ ایک مومن کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ ہدایت اوربھلائی صرف اللہ اوراس کےرسول کی اتباع میں ہےنہ کہ غیروں کی۔
اگرسارےممالک اسلامیہ ایک حرام چیز کوحلال کرنےپرتل جائیں اوراللہ اوراس کےپیغمبرنے اسےحرام کیا ہوتووہ تمام غلطی پرہیں اگرکہیں درستگی ہے تووہ صرف اللہ اوراس کےرسول کے پاس ہے۔
لیکن افسوس درافسوس کہ یہ مسئلہ قلوب مسلمین سے اس طرح نکال دیاگیا ہے،اس طرح مسلمان اس کی اہمیت سےغافل ہوگئے ہیں کہ علماء کرام کہ جواپنے آپ کو سلف کےعقیدہ پرتصورکرتے ہیں اوراپنے آپ کواہل الحدیث کہلاتے ہیں وہ بھی پوری طرح اس میں ملوث ہیں،میں نے خوداپنی آنکھوں سےدیکھا ہے کہ بعض اہل حدیث جماعت کےاکابرفضلاء جوکیمرے کےسامنے کھڑے ہوتے ہیں اورلوگوں کوخطبہ دیتے ہیں،انہیں کتاب وسنت کی اتباع کا وعظ کرتے ہیں انہیں بدعتیوں،فحاشی،منکرات سےروکتے ہیں لیکن ان کےسامنے مصوران کی تصویرکشی کررہاہوتا ہےاوران کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی کہ اس کام سےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایاہے،بلکہ حالت تویہ ہے کہ ایسالگتاہے کہ گویااس کاکوحرام ہی قرارنہ دیاگیاہو۔میں نے انہیں اس بات پرتنبیہا خط لکھاتوانہوں نے جواب دیاکہ یہ اب زندگی کا ایک حصہ ہے جس سےبچناناممکن ہے کیونکہ اس سے ہماری تصاویراورہماری بات دوسروں تک پہنچتی ہےاورہمارے مسلک کی ترویج ہوتی ہے۔تومجھے دوبارہ ان کی طرف لکھنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی کہ آج ہماری زندگی کامعیاراس قدرگرگیاہےکہ آج حرام اشیاءہماری زندگی کالازمی جزوبن چکی ہےجس سےبچناناممکن ہے ،پھرتومجھے خطرہ ہے کہ آگےآگے دیکھئے ہوتاہےکیا،کہ پتانہیں کیا کیا حرام اشیاء ہماری زندگی کاحصہ بنتی ہیں اورہم اسےجائز قراردیں گے،یہ عریاں رقص،فلمی گانے ،آلات موسیقی،مخلوط محفلیں ،سوداوررشوت خوری اورایسی بےشماراشیاء جوحرام ہیں لیکن یہ سب ہماری زندگی کالازمی جزوبن جائیں گی تویہ بھی حلال ہوجائیں گی۔اورپھرلوگ ان میں بھی جائیں گےاوراپنے وقت کو ضائع کریں گے۔
جیساکہ سائل نے کہا تھا کہ اسلامی فلمیں کہ جوصرف تعلیم کی غرض سےدیکھی جاتی ہیں ان میں کوئی لہوولعب نہیں۔
چلوبالفرض مان لوکہ یہ اسلامی فلمیں فقط تعلیم کے لیے ہیں ،لیکن ان میں صحابہ،تابعین اوراولیاء اللہ اورمحدثین کی جوتصویرکشی کی جاتی ہے کیا آج کا کوئی آدمی ان پاک ہستیوں کےبرابرہوسکتاہے؟کیا آپ اس کا تصوربھی کرسکتے ہیں کہ آج فاحش انسان کسی صحابی کی تصویرکشی میں ملوث ہو۔ارے یہ صحابی توکیایہ تواس صحابی کے پاوں کی مٹی کی دھول کےبرابربھی نہیں ہوسکتاکہ جومٹی کی دھول نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ان کےقدموں پر لگی۔توکیسےایک آدمی ان جیسی تصویرپیش کرسکتا ہےاورپھراسےپردہ اسکرین پردکھلایاجائے۔
بہرحال بات تویہ ہے کہ یہ مسئلہ ہی خارج عن البحث ہے،ہم فضول اس میں وقت کوضائع نہ کریں ان میں صرف جاہل ہی اپنا وقت ضائع کرسکتا ہے ،14صدیاں گزرگئیں آج تک کسی بھی اہل علم نے تعلیم وتربیت کے لیے اسلاف کے زندہ ہونے کی شرط نہیں لگائی توآج ہمیں اس کی اتنی کیا ضرورت پڑگئی کہ ہم ان بے کاراوربری اشیاء کی طرف رجوع کریں،کیاان حرام اشیاء کے بغیرآج تعلیم ممکن نہیں؟غورکریں۔
رہی بات جہاں تک ٹیلی ویژن کی توبذات خودٹیلی ویژن برانہیں لیکن چونکہ یہ ہی فلموں کی رویت کاذریعہ بنتاہےاورپھراس کودیکھنے کے بعدانسان سینمااوربڑی اسکرینوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اوراگرانسان شہرمیں رہتا ہوتووہ سینماگھرکی طرف جائے گاہی ۔اورپھرجب سینما کی طرف متوجہ ہوگااورلازمی امرہےکہ پھراسے مال بھی زیادہ خرچ کرناپڑے گااوربہت ساری مشکلات سےبھی گزرناپڑےگاتویہ تمام کام انتہائی برےہیں۔اوراگرگاوں کاماحول ہووہاں اگرایک گھر والے بھی ٹی وی لے آئیں توپوراگاوں ان کے گھرامڈآتاہےاوران کاگھرسینماکانظارہ پیش کررہا ہوتا ہے ،جہاں مردعورت بچے ہرعمرکےافرادآتےہیں،توجوگھراللہ کی برکتوں سےبھراہوتا ہےوہ فحاشی،منکرات اورفسق وفجورکااڈابن جاتاہےاوراسےدیکھ کرلوگوں کے ذہن خراب ہوتے ہیں وہ ایک علیحدہ نقصان ہے۔بعض لوگ پھریہ بھی کہتے ہیں کہ ہم اس پر صرف خبرسنتے ہیں توان کی خدمت میں عرض ہے کہ جونیوزکاسٹرہوتی ہے،بہت دفعہ عورتیں اورلڑکیاں ہوتی ہیں توانسان خبرسنے گا،کیا وہ ان عورتوں کی تصاویرنہیں دیکھے گا،اوراللہ تعالی کا تویہ فرمان ہے:﴿قُل لِّلْمُؤْمِنِینَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ﴾ (النور:۳۰) کہ مومنوں کوحکم دیجئےکہ اپنی نگاہوں کوپست رکھیں،توکیاخبریں دیکھنے سےاللہ کے اس حکم کی نافرمانی نہیں ہوتی ۔اورپھرکیسے ممکن ہے کہ ایک گھرمیں ٹی وی ہواورآدمی اسے خبروں یااسلامی پروگرام یاتقاریرتک محدودرکھے۔کیونکہ ہوسکتا ہے کہ جب صاحب گھرباہرجائے گاتوکیاوہ ٹی وی پرپہرہ داربٹھائے گا،ہوسکتا ہے اس کے جانے کے بعداس کےاہل خانہ اس پر منکراوربری اشیاء دیکھیں،کیونکہ جوہذیانی کیفیت فلمیں دیکھنا نفسانی خواہشات جنسی میلان جس طرح مردوں میں ہوتا ہے عورتوں میں بھی توہوتا ہےتوکتنی ہی پاکبازعقلمندعورتیں اس ٹی وی کی وجہ سے اس فحاشی کے دلدل میں دھنس جاتی ہیں۔
باب:......اس کے علاوہ ایسے ہی اسلام میں تصویرممنوع اورحرام ہے اوریہ
ٹیلی ویژن تصویرکاایک آلہ ہےاورمشکوک چیزہے،اورجومشکوک اشیاءکےقریب بھی جاتاہےممکن ہےکہ وہ مشکوک سےحرام میں داخل ہوجائےاورعین ممکن ہے کہ اس کی وجہ سے انسانی فحاشی میں غرق ہوجائے اوراسی وجہ سے اللہ تعالی کایہ فرمان ہے:
﴿وَلَا تَقْرَبُوا۟ ٱلْفَوَٰحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ﴾ (الانعام:١٥١)
‘‘فحاشی کےقریب بھی نہ جاوچاہے جوظاہرہویاپوشیدہ۔’’
توجوشخص بھی یہ پسندکرتاہوکہ وہ اپنے ایمان اورعزت کی حفاظت کرےتوان تمام عوامل سےاپنے آپ کوبچائے کہ جوایک پاکدامن انسان کوبرائی کے راستے پرڈال دیں جواہل اسلام اوراسلام کےدشمنوں کی ایجادات ہیں کہ ان کے ذریعہ سےلوگوں کوصراط مستقیم ہٹائیں۔
توہمارےعلم کےمطابق ٹی وی بھی ممنوع ہے شرعی لحاظ سے۔اورہرمومن مرداورمومنہ عورت پریہ لازم ہے ،اپنے آپ کواوراپنے گھراس بڑی تباہی اورہلاکت سےبچائیں کیونکہ اگروہ ایسانہیں کریں گےتوتمام گھروالوں کاگناہ سربراہان کےذمہ ہوگا۔کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےہرقل کوجوخط لکھاتھااس میں یہ بھی لکھاتھا:
((فإن تولیت فعلیک إثم الاریسیین)) (الجامع الصحیح للبخاری)
‘‘اگرتوایمان نہ لایاپھرگیاتوتمام اریسیوں کاگناہ تیرے سرہوگا۔’’
توعزیزان من!ایسی تمام اشیاء سےاپنے آپ کوبچالوکہ جوظاہراتوبڑی اچھی ہیں لیکن حقیقت میں زہرقاتل کی حیثیت رکھتی ہیں ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ راشدیہ
صفحہ نمبر 493