کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 202
(175) ماتم اور شبیہوں کی شرعی حیثیت
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
کیا مصیبت کے وقت بے صبری کا مظاہرہ کرنا، گریبان چاک کرنا، اپنے سینے پر تھپڑ مارنا اور تعزیہ و شبیہ لے کر بازاروں میں نکلنا قرآن و سنت اور ائمہ اہل بیت سے ثابت ہے؟
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ!
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مصیبت کے وقت صبر کی تلقین کی ہے اور گریبان چاک کرنا ، سینہ کوبی کرنا وغیرہ صبر کے خلاف ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّـہَ مَعَ الصَّابِرِینَ ﴿١٥٣﴾...البقرة
''اے ایمان والوں صبر اور نماز سے مدد لو۔ بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔''(البقرہ : ۱۵۳)
انسان کو احکام شریعت پر عمل کرنے میںجو دشواریاں پیش آتی ہیں اور مصائب و آلام برداشت کرنے پڑتے ہیں ۔ صبر و صلوٰة ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے بہترین معاون ہیں جیسا کہ حدیث میں آتا ہے ''مومن کے لئے ہر حال میں بہتری ہے تکلیف کی حالت میں صبر کرتا ہے اور خوشحالی میں شکر گزار رہتا ہے۔'' (تفسیر ابنِ کثیر، قرطبی )
اس آیت کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کے احکامات اور مومنین کی آزمائش کا ذکر کیا ہے کہ:
﴿وَلَنَبْلُوَنَّکُم بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ ﴿١٥٥﴾ الَّذِینَ إِذَا أَصَابَتْہُم مُّصِیبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّـہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ﴿١٥٦﴾...البقرة
''جولوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جائیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے اور البتہ ہم آزمائیں گے تم کو کسی ایک چیز کے ساتھ ڈر سے اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی کے ساتھ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے جب ان کی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ (انّا للہ و انّا الیہ راجعون) کہتے ہیں۔''(البقرہ : ۱۰۴ تا ۱۰۶)
مندرجہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ مومن آدمی کو اللہ تعالیٰ مختلف طرق سے آزماتا ہے۔ کبھی خوف و ڈر کے ذریعے ، کبھی جانوں اور مالوں کی کمی کے ذریعے اور کبھی پھلوں کے نقصانات سے۔ ایمان دار آدمی کو جب ان تکالیف میں سے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ بے صبری نہیں کرتا بلکہ صبر کے ساتھ ان مصائب کو برداشت کرتا ہے جو لوگ مصیبت یا پریشانی دیکھ کر بے صبری کریں اور واویلا برپا کردیں، گریبان چاک کریں، بال نوچیں وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اُمت محمد سے نہیں ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( لیس منا من ضرب الخدود و شق الجیوب و دعا بدعوی الجاہلیة.))
''جس شخص نے رخسار پیٹے اور گریبان چاک کیا اور جاہلیت کے واویلے کی طرح واویلا کیا وہ ہم میں سے نہیں۔'' (بخاری مع فتح ۱۲۳/۳، مسلم۱۶۰، نسائی۱۹/۴، مستنقی لا بن جرود۵۱۶ ، ترمذی۹۹۹، ابنِ ماجہ۱۰۸۴، احمد۳۸۶/۱،۴۳۲، بیہقی۶۴/۴)
عشرہ محرم الحرام میں جو لوگ سیدنا علی ، سیدنا حسین اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہم کا نام لے کر گلی کوچوں میں نکلتے ہیں اور گریبان چاک کرتے ہیں ، سینہ کوبی کرتے ہیں، ان کا یہ عمل قرآن و سنت کے خلاف ہونے کے علاوہ ائمہ بیت اور مجتہدین فقہ جعفریہ کے فتاویٰ کے بھی خلاف ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق یہ قبیح عمل352 ھ دس محرم الحرام کو بغداد میں معزالدولہ شیعہ کے حکم سے جاری ہوا ہے۔ اس سے قبل اس عمل قبیح کا نام و نشان نہیں ملتا۔ تاریخ ابنِ اثیر ص ۱۹۷ پر مرقوم ہے:
''عشرہ محرم الحرام میں اس قبیح رسم کا رواج بغداد میں معزالدولہ شیعہ سے ہوا جس نے دس محرم 352ھ کو حکم دیا کہ دُکانیں بند کر دی جائیں ، بازار اور خریدو فروخت کا کام روک دیا جائے اور لوگ نوحہ کریں ، مکمل کالا لباس پہنیں، عورتیں پراگندہ ہو کر گریبان چاک کریں، پیٹتی ہوئی شہر کا چکر لگائیں۔''
ہم فقہ جعفریہ کی معتبر کتاب سے چند روایات درج کرتے ہیں:
(( عن أبی عبد اللہ قال إن الصبر و البلاء لیأتیان إلی المؤمن فیأتیہ البلاء وہو صبور وإن الجزع والبلاء لیأتیان إلی الکافر فیأتیہ البلاء وہو جزوع.))
''امام جعفر صادق سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ یقینا صبر اور آزمائش دونوں مومن پر آتے ہیں۔ مومن پر جب آزمائش آتی ہے تو وہ صبر کرنے والا ہوتا ہے اور بے صبری اور آزمائش دونوں کافر پر آتے ہیں جب س پر آزمائش آتی ہے تو وہ بے صبری کرتا ہے۔'' (فروع کافی، کتاب الجنائز۱۳۱/۱)
امام جعفر صادق کے س فتویٰ سے معلوم ہوا کہ صبر کرنے والا مومن ہے اور جو بے صبری کرتا ہے وہ مومن نہیں ہے۔
(( قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لفاطمة إذا أنا مت فلا تخمشی علی وجہا ولا ترخی علی شعرا ولا تنادی ولا تقیمی علی نائحة.))
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمة الزہراء رضی اللہ عنھا سے فرمایا جب میں مر جاؤں تو مجھ پر چہرہ نہ نوچنا اور نہ مجھ پر اپنے بال بکھیرنا اور نہ واویلا کرنا اور نہ مجھ پر نوحہ کرنا۔'' (فروع کافی ، کتاب النکاح ، ص۲۲۸)
(( قال أبو عبد اللہ علیہ السلام لا ینبغی الصیاح علی المیت ولا شق الثیاب.))
''امام جعفر صادق نے فرمایا میت پر چیخ و پکار اور کپڑے پھاڑنا جائز نہیں۔'' (فروع کافی۱۸۸/۱)
(( قال أبو جعفر من جدد قبرا أو مثل مثالا فقد خرج عن الإسلام .))
''امام باقر نے فرمایا ، جس نے قبر کی تجدید کی یا کوئی شبیہ بنائی ، وہ اسلام سے خارج ہو گیا۔'' (من لا یحضر ة الفقیة باب النوادر)
(( قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تلطمن خدا ولا تخمشن وجہا و لا تنتفن شعرا ولا تشققن جیبا ولا تسودن ثوبا ولا تدعین بالویل.))
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''رخسار ہر گز نہ پیٹنا اور نہ ہی چہرہ نوچنا اور نہ بال اکھیڑنا اور نہ گریبان چاک کرنا اور نہ کپڑے سیاہ کرنا اور نہ واویلا کرنا۔'' (فروع کافی، کتاب النکاح ص۲۲۸)
مندرجہ ذیل فقہ جعفریہ کی پانچ روایات سے معلوم ہوا کہ فقہ جعفریہ میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، امام باقر اور امام جعفر صادق وغیرہ سے روایات موجود ہیں جو اس بات پر صراحتاً دلالت کرتی ہیں کہ مصیبت کے وقت بال بکھیرنا ، چہرے پیٹنا ، سینہ کوبی کرنا، واویلا کرنا، مرثیے پڑھنا ، شبیہ بنانا ، قبروں کی تجدید کرنا ناجائز اور حرام ہیں۔ لہٰذا پنج تن کا نعرہ لگانے والوں کو مذکورہ بالا فقہ جعفریہ کے پانچ دلائل کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے اور اس کی خلاف ورزی کرنے سے بار آجانا چاہیے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
آپ کے مسائل اور ان کا حل
ج 1