کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 2014
(353) بنک کی نوکری حرام ہے السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ : بنک کی نوکری کا شریعت میں کیا حکم ہے ؟ ( ع ، م جامعہ عائشہ للبنات غازی آباد لاہور )   الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! بنک کی ملازمت قطعاً جائز نہیں ۔ احادیث کی کتابوں میں صاف طور پر بنک کی ملازمت حرام اور نا جائز قرار دی گئی ہے ۔ جامع ترمذی میں کتاب البیوع باب الربا میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نی فرمایا }لَعَنَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آکِلَ الرِّبَا، وَمُوکِلَہُ، وَشَاہِدَیْہِ، وَکَاتِبَہُ{( ۱ تحفۃ الاحوذی ج ۲ ص ۱۳۶ )  کہ اللہ تعالیٰ نے سود کھانے والے ، کھلانے والے سود کے معاملہ میں گواہ بننے والے اور سود کا معاملہ لکھنے والے ،یعنی کلرک ، مینجر ، خازن وغیرہ سب پر لعنت کی ہے ۔ لہٰذا اس  حدیث سے ثابت ہوا کہ ہر قسم کے موجودہ بنکوں میں ہر طرح کی نوکری کرنا حرام، سخت گناہ اور لعنتی عمل ہے  ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ محمدیہ ج1ص667 محدث فتویٰ