کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 2004
بینکوں کے ذریعے سرمایہ کی منتقلی
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
کیا ایک مسلمان کے لیے ان بینکوں کے ساتھ معاملہ کرنا جائز ہے جو سرمایہ پر سود دیتے اور قرض پر سود لیتے ہیں؟
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ!
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنا سرمایہ کسی ایسے بینک میں رکھے جو اسے سالانہ معین مقدار میں سود دیتا ہو اور نہ یہ جائز ہے کہ وہ سودا ادا کرنے کی شرط پر کسی بھی بینک سے قرض لے مثلا یہ کہ جب وہ بینک کا سرمایہ واپس کرے گا تو اس سے پانچ فی صد سود بھی ادا کرے گا۔ یہ دونوں صورتیں کتاب و سنت اور اجماع کے دلائل کے عموم میں داخل ہیں جو سود کی حرمت پر دلالت کرتے ہیں اور یہ بات بالکل واضح ہے۔والحمداللہ!
جہاں تک سود کے بغیر بینکوں میں اپنا سرمایہ محض بطور امانت رکھنےکی بات ہے تو اگر آدمی مجبور و مضطر نہ ہو تو پھر جائز نہیں کیونکہ یہ بینک مالکان کے ساتھ سودی معاملات میں تعاون ہو گا اور اشراد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَتَعاوَنوا عَلَی البِرِّ وَالتَّقویٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَی الإِثمِ وَالعُدوٰنِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّہَ ۖ إِنَّ اللَّہَ شَدیدُ العِقابِ ﴿٢﴾... سورة المائدة
"اور نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں تم ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو، اللہ سے ڈرتے رہو، کچھ شک نہیں کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔"
اور اگر کوئی شخص بینکوں میں اپنا سرمایہ رکھنے کے لیے مجبور ہو تو پھر ان شاءاللہ اس میں کوئی حرج نہ ہو گا۔ ایک بینک کے ذریعے دوسرے بینک میں سرمایہ کی منتقلی میں کوئی حرج نہیں خواہ منتقلی کی خدمات سرانجام دینے والا بینک سرچارج وصول کرے کیونکہ یہ سر چارج در حقیقت منتقلی کے کام کی اجرت ہوتی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج2 ص516
فتوی کمیٹی