کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1998
سودی بنکوں میں امانت رکھنے کا حکم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ اگر کسی کے پاس کچھ نقد رقم ہو اور وہ حفاظت کی خاطر اسے امانت کے طور پر کسی بینک میں رکھے اور سال کا عرصہ گزرنے پر اس کی زکوٰۃ ادا کردے تو کیا یہ اس کے لیے جائز ہے یا نہیں ؟ ہمیں مستفید فرمائیے۔ اللہ آپ کو بہتر جزاء عطا فرمائے۔ (عمری۔ ع۔ع۔جدہ(  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! سودی بینکوں میں امانت رکھنا جائز نہیں ، خواہ وہ اس پر سود نہ لے۔ کیونکہ اس کام میں گناہ اور سرکشی پر اعانت ہے۔ جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس سے منع کیا ہے۔ لیکن جب کوئی شخص اس کام پر مجبور ہو اور سود نہ لے اور اپنے مال کی حفاظت کے لیے سودی بنک کے علاوہ اور کوئی جگہ نہ پائے تو مجبوری کی بنا پر (ان شاء اللہ) اس میں کوئی حرج نہیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتاہے : }وَ قَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ} (الانعام: ۱۱۹( ’’اور جو کچھ اللہ نے تم پر حرام کیا ہے، اسے کھول کر بیان کر دیا ہے۔ الا یہ کہ تم کسی بات پر مجبور ہو جاؤ۔‘‘ اور جب کوئی اسلامی بینک یا امانت رکھنے کی جگہ پا لے جس میں گناہ اور سرکشی پر تعاون کی صورت نہ ہو تو اپنا مال اس میں امانت رکھے۔ اب اس کے لیے سودی بینک میں امانت رکھنا جائز نہ ہوگا۔     فتاوی بن باز رحمہ اللہ جلداول -صفحہ 149 محدث فتویٰ