کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1997
بنکوں کے حصے خریدنے کا حکم
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
بینکوں کے حصے خریدنے اور کچھ مدت بعد انہیں بیچ دینے کا کیا حکم ہے جبکہ مثال کے طور پر ایک ہزار کے حصے تین ہزار کے ہو جائیں اور کیا اسے سود ہی سمجھا جائے گا؟ (ناصر۔ع۔ ا۔ الخرج)
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
بینکوں کے حصوں کی خرید و فروخت جائز نہیں کیونکہ یہ نقدی سے بیع ہے۔ جس میں نہ برابر برابر ہونے کی شرط پائی جاتی ہے اور نہ قبضہ میں لینے کی اور اس لیے بھی کہ سودی اداروں کے ساتھ تعاون جائز نہیں ۔ نہ ہی ان کی خرید و فروخت جائز ہے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتاہے :
}وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ} (المآئدۃ: ۲(
’’اور نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں نہ کیا کرو۔‘‘
اور جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ ’’آپ نے سود لینے والے، دینے والے، اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب لوگ گناہ میں برابر کے شریک ہیں ۔‘‘
اور آپ صرف اپنا راس المال ہی لے سکتے ہیں ۔
آپ کو اور دوسرے سب مسلمانوں کو میری یہی نصیحت ہے کہ وہ ہر طرح کے سودی معاملات سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں اور گزشتہ معاملات پر اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کریں کیونکہ سودی معاملات دراصل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ اور اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کے عذاب کے اسباب میں ے ایک سبب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
}اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا فَمَنْ جَآئَ ٗہ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ وَ اَمْرُہٗٓ اِلَی اللّٰہِ وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَo یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیْمٍ)_{البقرۃ: ۲۷۵۔۲۷۶(
’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو۔ یہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ خرید و فروخت بھی تو سود ہی کی طرح ہے حالانکہ بیع کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ تو جس شخص کو اپنے پروردگار کی طرف سے نصیحت پہنچی وہ باز آگیا تو پہلے جو ہو چکا وہ اس کا اور (قیامت کو) اس کا معاملہ اللہ کے سپرد اور جو پھر سود لینے لگا تو ایسے لوگ جہنمی ہیں ہمیشہ اس میں جلتے رہیں گے۔ اللہ سود کو نابود کرتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گنہگار کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
نیز اللہ عزوجل نے فرمایا:
}یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ){البقرۃ: ۲۷۸۔ ۲۷۹(
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اور اگر ایسا نہ کرو گے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ اور اگر توبہ کر لو (سود چھوڑ دو) تو تم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے۔ جس میں نہ دوسروں کا نقصان نہ تمہارا نقصان۔‘‘
اور جیسا کہ پہلے حدیث شریف گزر چکی ہے۔
فتاوی بن باز رحمہ اللہ
جلداول -صفحہ 148
محدث فتویٰ