کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1993
بنکوں کی ملازمت کا حکم
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
میرا چچا زاد بھائی بینک الجزیرہ میں ملازم ہے۔ کیا اس کے لیے یہ ملازمت جائز ہے یا نہیں ؟ ہمیں فتویٰ دیجئے، اللہ تعالیٰ آپ کو بہتر جزا دے… میں نے اپنے بھائیوں سے سنا ہے کہ بینک کی ملازمت جائز نہیں ۔ (عمری ۔ع۔ ا۔ جدہ(
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
سودی کاروبار کرنے والے بینکوں میں ملازمت کرنا جائز نہیں ۔ کیونکہ یہ کام گناہ اور سرکشی کے کاموں میں تعاون ہوتا ہے، جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتاہے :
)وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِo} (المآئدۃ: ۲(
’’اور نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ کا عذاب سخت ہے۔‘‘
اور یہ تو معلوم ہے کہ سود بہت بڑے بڑے گناہوں میں سے ے۔ لہٰذا ایسے لوگوں سے تعاون جائز نہیں … نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں سب پر لعنت فرمائی ہے۔ نیز فرمایا کہ یہ سب لو گ اس گناہ میں برابر کے شریک ہیں ۔‘‘
اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا۔
فتاوی بن باز رحمہ اللہ
جلداول -صفحہ 144
محدث فتویٰ