کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1957
(393) تعطیلات کی تنخواہ کا شرعاً حکم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علما ئے دین کرا م دریں مسئلہ کہ دینی مدرسین دوماہ سالانہ تعطیلات  کی تنخواہ کے شرعاًمستحق ہو تے ہیں یانہیں  بعض دفعہ مدرس خود بر موقعہ امتحان  سالانہ استعفیٰ دے دیتا ہے ادر انتظامیہ کو تنخواہ سے محروم کرنے کا موقعہ مل جا تا ہے اور بعض دفعہ انتظامیہ  کی طرف سے مدرسین کو جواب مل جا تا ہے دوسری صورت  میں کسی مدرس کوایام رخصت کی تنخواہ مل جاتی ہے اور کسی کومحرومی کاشکار ہونا پڑتا ہے لہذا تفصیل سے روشنی ڈالیں  کس صورت میں محروم ہوتا ہے اور کس صورت  میں حقدار ؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! انتظامیہ اور مدرس کوشروع  ہی سے اتفاق رائے سے چھٹیوں کی تنخواہ  کا مسئلہ طے کر لینا چاہیے چاہے اتفاق ادائیگی پر ہو یا عدم ادائیگی پر بعد میں اسی کے مطابق عمل ہوگا قرآن مجید میں ہے ۔ ﴿یـٰأَیُّہَا الَّذینَ ءامَنوا أَوفوا بِالعُقودِ...﴿١﴾... سورة المائدة اگریہ صورت نہ ہو توفیصلہ معروف پر ہوگا بقاعدہ "المعروف کالمنشروط" اور اگر یہ بھی ناممکن ہوتو مدرس کی حیثیت اجیرخاص کی ہوگی مغنی ابن قدامہ (5/305)پراجیر خاص کی تعریف بایں الفاظ ہے : «ہو الذی یقع العقد علیہ فی مدة معلومة یستحق المستاجر نفعہ فی جمیعہا کرجل الستوجر لخدمة او عمل فی بناء او خیاطة او رعایة یوما او شہرا سمی خاصا لاختصاس المستاجر بنفعہ فی تلک المدة دون سائر الناس» نیز ہدایہ میں ہے : «والاجیر الخاص الذی یستحق الاجرة بتسلیم نفسہ فی المدة وان لم یعمل کمن الستوجر شہر الخدمة او یرعی الغنم وانما سمی اجیرا لانہ لا یمکنہ ان یعمل لغیرہ» صورت ہذا میں مدرسین حضرات تعطیلات کی تنخواہ کے مستحق ہوں گے اسی طرح اثناء سال مدرس کی تدریس اگر کسی وجہ سے موقوف ہوجاتی ہے مثلاً طلباء نہیں ملتے یااسی طرح کاکوئی اور عارضہ پیش آجاتا ہے تو مدرس بدستور رواتب  کا مستحق ٹھہرے گا جب تک کہ اتفاق رائے سے اس کے خلاف کو ئی حتمی فیصلہ نہ ہو ۔بدایۃالمجتہدمیں ہے : }فقال عبد الوہاب :الظاہر من مذہب اصحابنا ان محل استیفاء المنافع لا یتعین فی الاجارة وان عین فذالک کالو صف لا ینفسخ ببیعہ او ذہابہ بخلاف العین المستاجرة اذاس تلفت وذلک مثل ان یستاجر علی رعایة غنم باعیانہا او خیاطة قمیص بعینہ فتہلک الغنم ویحترق الثوب فلا ینفسخ العقد وعلی المستاجر ان یاتی بغنم مثلہا لیرعاہا او قمیص مثلہ لیخیطہ{ نیز مدرسین کو چھٹیوں کا حق چونکہ انتظامیہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے اس کا بھی تقاضا ہے کہ مدرسین کو حق سے محروم نہ رکھا جائے جیسا کہ حضرت عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جنگ بدر میں اپنی رفیقہ  حیات رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی علالت کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے اس کے باوجود نبی کر یم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: } ان لک اجر ممن شہد بدرا او سہمہ» صحیح البخاری کتاب فرض الخمس باب اذا بعث الامام رسولا فی حاجتہ .......(3130)(رواہ البخاری) چو نکہ حضرت عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا پیچھے رہ جا نا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی سے تھا اس لیے مال غنیمت سے سہم کے حقدار بنے اسی طرح مدرسین کاعدم حضور بھی انتظامیہ  کی رضا سے ہے لہذا وہ بھی حقدار بننے  چاہئیں بنابر یں مسئولہ صورتوں  کو مذکور ہ بالا صورتوں  پر محمول کیا جائے گا ۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ ج1ص695 محدث فتویٰ