کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1893
سودی کاروبار اور سرکاری نوکری
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
(۱) ایسے معاشرے میں سرکاری نوکری کرنا جائز ہے جہاں سارا معاشرہ سود کی لپیٹ میں ہو۔ جس طرح ہماری حکومت آئی ایم ایف وغیرہ سے سود قرض لیتی ہے اور ملک کو چلاتی ہے۔ کیا ہم سود میں شامل ہیں یا نہیں؟
(۲) پنشن لینا یا گولڈن ہینڈ شیک لینا یا بنکوں میں نوکری کرنا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ!
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
مجبوری کی حالت میں ایسی نوکری جائز ہے جس میں طاغوت اور سودی حکومت کو تقویت نہ ملتی ہو۔
ابو سعید الخدری) اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لیاتین علی الناس زمان یکون علیکم امراء سفہاء یقدمون شرار الناس و یظہرون یخیارہم و یوخرون الصلوة عن مواقیتہا فمن ادرک ذلک منکم فلایکونن عریفا ولا شرطیا ولا جابیا ولا خازنا»
لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جب تمھارے حکمران بے وقوف ہوں گے۔ وہ برے لوگوں کو حکومت میں آگے لائیں گے اور نیک لوگوں کو پیچھے ہٹائیں گے۔ نماز کو اس کے اوقات سے لیٹ کر کے پڑھیں گے تم میں سے جو شخص ان کا زمانہ پائے تونہ ان کا عریف (قوم کے معاملات کی دیکھ بھال کرنے والا یعنی قومی و صوبائی اسمبلی کا نمائندہ، کونسلر، بی ڈی ممبر وغیرہ) بنے۔ نہ فوجی (سپاہی) بنے اور نہ ٹیکس اکٹھا کرنے والا اور نہ خزانچی بنے۔ (مسند ابی یعلی ۳۶۲/۲ ح۱۱۱۵، و سندہ حسن، موارد الظلمان: ۱۵۵۸)
ا س کی سند حسن لذاتہ ہے۔ عبدالرحمن بن مسعود کو ابن حبان، حاکم، ذہبی (المستدرک ج۳ ص۱۶۶) ہیثمی (مجمع الزوائد ج۵ ص۲۴۰) نے ثقہ و صحیح الحدیث قرار دیا ہے۔
عریف کے بارے میں النہایہ (۲۱۸/۳) میں لکھا ہا ہے: ’’وہو القیم بامور القبیلة او الجماعة من الناس یلی امورہم و یتعرف الامیر منہ احوالہم»
اس تعریف میں MPA, MNA کونسلرز اور بی ڈی ممبران سب آتے ہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)
ج2ص230
محدث فتویٰ