کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1873
ہر وہ قرض ربا ہے جو نفع بخش ہو السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ایک آدمی نے دوسرے سے قرض مانگا تو اس نے اس شرط پر قرض دیا کہ وہ قرض کی رقم کے عوض اس کی زرعی زمین اپنے پاس رہن رکھے گا اور کاشت کاری بھی کرے گا اور اس کا سارا غلہ خود رکھ لے گا یا آدھا خود رکھے گا اور آدھا زمین کے مالک کو دے دے گا اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مقروض وہ سارا قرض ادا نہیں کر دیتا جو اس نے لیا تھا، قرض ادا کرنے کے بعد ہی وہ اپنی زمین واپس لے سکے گا۔ اس مشروط قرض کے بارے میں آپ کی رائے میں حکم شریعت کیا ہے؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! قرض تو نرمی کے معاہدوں میں سے ہے اور اس سے مقصود مقروض کے ساتھ نرمی اور احسان ہوتا ہے اور نرمی و احسان وہ امور ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب و مطلوب ہیں کیونکہ اس میں بندگان الہی کے ساتھ احسان ہے اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ المُحسِنینَ ﴿١٩٥﴾... سورة البقرة "اور نیکی کرو بے شک اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والے کو دوست رکھتا ہے۔" قرض دہندہ کے لیے یہ مشروع و مستحب ہے اور مقروض کے لیے جائز اور مباح ہے۔ حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے اونٹ قرض لیا تھا اور پھر آپ نے اس سے بہتر اونٹ واپس کیا۔[1] قرض جب نرمی اور احسان کا معاہدہ ہے تو پھر یہ جائز نہیں کہ اسے معاوضہ و نفع کے معاہدہ سے بدل دیا جائے کیونکہ یہ اپنے موضوع سے خارج ہو کر بیع اور معاوضہ کے موضوع میں داخل ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص دوسرے سے یہ کہے گا کہ "میں تجھے یہ دینار، دوسرے دینار کے عوض ایک سال کے لیے فروخت کرتا ہوں ، یا یہ کہے کہ یہ دینا، دوسرے دینار کے عوض فروخت کرتا ہوں،" اور پھر دونوں دینار کو قبضہ میں لینے سے پہلے الگ ہو جائیں تو بیع حرام اور ربا ہو گی لیکن اگر وہ اسے ایک دینار بطور قرض دے اور وہ اسے چھ ماہ یا ایک سال بعد واپس کر دے تو یہ جائز ہے حالانکہ قرض دہندہ نے اس کے عوض کو چھ ماہ بعد یا اس سے کم و بیش مدت کے بعد نرمی کے پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے واپس لیا ہے۔ لہذا معلوم ہوا کہ اگر کوئی قرض دہندہ مقروض کے ساتھ کسی مادی نفع کی شرط لگائے تو یہ معاملہ قرض کے موضوع سے خارج ہونے کی وجہ سے حرام ہو جائے گا کیونکہ اہل علم کے ہاں ایک مشہور و معروف قاعدہ ہے کہ ہر وہ قرض  جو نفع کا باعث ہو وہ ربا ہے لہذا قرض دہندہ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ مقروض سے کہے کہ میں اس شرط پر قرض دوں گا کہ تم اپنی زمین زراعت کے لیے مجھے دو خواہ وہ اسے اس زمین کی پیداوار سے حصہ بھی دے دے۔ اس صورت میں قرض سے چونکہ قرض دہندہ کو نفع حاصل ہوتا ہے اس لیے یہ قرض اپنے اصلی موضوع نرمی اور احسان سے خارج ہو جانے کی وجہ سے قرض ہی نہیں رہتا۔  [1] صحیح بخاری، الاستقراض، باب حسن القضاء، حدیث: 2393 وصحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 1601-1600 ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج2 ص538 محدث فتویٰ