کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1871
سودی نفع سے بچنے کا طریقہ
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
جب ایک سال سے زیادہ مدت کے بعد میں بینک سے اپنی رقم لوں اور اس کے ساتھ نفع بھی ہو تو کیا اس نفع کو لے کر صدقہ کر دوں یا اسے بینک ہی کو دے دوں یا میں کیا کروں؟
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ!
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
مال پر جب بھی ایک سال کی مدت گزر جائے تو آپ کے لیے اس کی زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے، یہ مال بینک میں ہو یا کسی اور جگہ بشرطیکہ نصاب کے مطابق ہو۔ بینک آپ کو جو نفع دے اسے نہ خود کھائیں اور نہ بینک کو دیں بلکہ اسے نیکی کے کاموں میں صرف کریں مثلاً فقیروں پر صدقہ کر دیں، نالیوں اور غسل خانوں وغیرہ کو بنوا دیں اور قرضوں کے ادا کرنے سے عاجز و قاصر مقروضوں کی مدد کریں۔ آپ کے لیے یہ جائز نہیں کہ بینک یا کسی اور کے ساتھ سودی معاملہ کریں کیونکہ سود بدترین قسم کا کبیرہ گناہ ہے، چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی کتاب عظیم میں ارشاد فرمایا ہے:
﴿الَّذینَ یَأکُلونَ الرِّبوٰا لا یَقومونَ إِلّا کَما یَقومُ الَّذی یَتَخَبَّطُہُ الشَّیطـٰنُ مِنَ المَسِّ ۚ ذٰلِکَ بِأَنَّہُم قالوا إِنَّمَا البَیعُ مِثلُ الرِّبوٰا ۗ وَأَحَلَّ اللَّہُ البَیعَ وَحَرَّمَ الرِّبوٰا ۚ فَمَن جاءَہُ مَوعِظَةٌ مِن رَبِّہِ فَانتَہیٰ فَلَہُ ما سَلَفَ وَأَمرُہُ إِلَی اللَّہِ ۖ وَمَن عادَ فَأُولـٰئِکَ أَصحـٰبُ النّارِ ۖ ہُم فیہا خـٰلِدونَ ﴿٢٧٥﴾ یَمحَقُ اللَّہُ الرِّبوٰا وَیُربِی الصَّدَقـٰتِ ۗ وَاللَّہُ لا یُحِبُّ کُلَّ کَفّارٍ أَثیمٍ ﴿٢٧٦﴾... سورة البقرة
"جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو۔ یہ اس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ سودا بیچنا بھی تو (نفع کے لحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ سودے کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام، تو جس شخص کے پاس اللہ کی نصیحت پہنچی اور وہ (سود لینے سے) باز آ گیا تو جو پہلے ہو چکا ہو اس کا، اور (قیامت میں) اس کا معاملہ اللہ کے سپرد اور جو پھر لینے لگا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں وہ ہمیشہ دوزخ میں (جلتے) رہیں گے۔ اللہ سود کو نابود (یعنی بے برکت) اور خیرات (کی برکت) کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گناہ گار کو دوست نہیں رکھتا۔"
﴿یـٰأَیُّہَا الَّذینَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَذَروا ما بَقِیَ مِنَ الرِّبوٰا إِن کُنتُم مُؤمِنینَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَم تَفعَلوا فَأذَنوا بِحَربٍ مِنَ اللَّہِ وَرَسولِہِ ۖ وَإِن تُبتُم فَلَکُم رُءوسُ أَموٰلِکُم لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ ﴿٢٧٩﴾... سورة البقرة
"اے مومنو! اللہ سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو، اگر ایسا نہ کرو گے تو خبردار ہو جاؤ (کہ تم) اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کے لیے (تیار ہوتے ہو)۔ اور اگر توبہ کر لو گے (اور سود چھوڑ دو گے) تو تم کو اپنی اصلی رقم لینے کا حق ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان ہو اور نہ تمہارا نقصان۔"
یہ تمام آیات کریمہ دلالت کناں ہیں کہ سود شدید حرام ہے اور کبیرہ گناہ اور جو اس پر اصرار کرے، اس کے لیے ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنے کی وعید ہے۔ ہم اللہ سے پناہ چاہتے ہیں۔۔۔ اگر کوئی سود کو حلال سمجھتا ہو تو اس کے لیے یہ خلود، کافروں کے خلود کی طرح ظاہر ہی پر محمول ہو گا۔
جو شخص یہ جانتا ہے کہ سود حرام ہے، اس کی حرمت کا عقیدہ بھی رکھتا ہے اور پھر بھی سود پر اصرار کرتا ہے تو وہ بھی مذکورہ وعید کا ؐصداق ہے۔ اور اگر وہ جہنم رسید ہو گیا تو اس کا یہ خلود کفار کے خلود کی طرح نہ ہو گا بلکہ اس کے خلود کی کوئی نہ کوئی انتہاء ہو گی جیسا کہ خوارج و معتزلہ کے خلاف اس امت کے ائمہ سلف کا عقیدہ ہے۔ اسی طرح خود کشی کرنے والے، کسی انسان کو جان بوجھ کر دشمنی سے قتل کرنے والے اور زانی کے خلود کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا کہ جو شخص ان گناہوں کو حلال سمجھے گا، اسے کافر قرار دیا جائے گا اور وہ کافروں ہی کی طرح ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ نعوذباللہ من ذالک
جو شخص ان گناہوں کو حلال نہ سمجھے لیکن خواہش نفس اور شیطان کی اتباع میں ان کا ارتکاب کرے تو وہ اگر جہنم رسید ہوا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں نہیں رہے گا بلکہ اس کے جہنم میں رہنے کی مدت کی کوئی حد ہو گی کیونکہ عربی زبان میں طویل عرصہ تک اقامت کو بھی خلود کہا جاتا ہے اور قرآن کریم عربوں ہی کی زبان میں زبان ہوا ہے۔ یہ ایک بہت عظیم مسئلہ ہے، لہذا اسے بیان کرنا اور کافروں اور گناہ گاروں کے لیے ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنے کے فرق کو واضح کرنا واجب تھا۔ کافروں اور گناہ گاروں کے خلود فی النار میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے خوارج و معتزلہ ایک "منکر" عظیم اور اعتقاد فاسد میں مبتلا ہو گئے تھے اور کہتے تھے کہ گناہ گار بھہ کفار کی طرح ہمیشہ ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے جب کہ اہل سنت نے ان کے اس عقیدے کی زبردست تردید کی اور کتاب و سنت کے واضح دلائل اور سلف امت کے اقوال کی روشنی میں ان کے مذہب کے باطل ہونے کو واضح کیا۔
صحیح حدیث میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے،لکھنے والے اور دونوں گواہی دینے والوں پر لعنت کی اور فرمایا:
(ہم سواء) (صحیح مسلم‘ المساقاة‘ باب لعن آکل الربا ومؤکلہ‘ ح: 1598)
"یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں۔"
صحیح بخاری میں حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، ہاتھ میں گودنے والی، ہاتھ میں گودنے کے لیے کہنے والی اور مصور پر لعنت فرمائی ہے۔[1]
تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ سودی معاملات اورو سودی لین دین کرنے والوں سے تعان کرنے سے پرہیز کریں جیسا کہ مذکورہ دونوں حدیثوں اور درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ سے ثابت ہے:
﴿وَتَعاوَنوا عَلَی البِرِّ وَالتَّقویٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَی الإِثمِ وَالعُدوٰنِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّہَ ۖ إِنَّ اللَّہَ شَدیدُ العِقابِ ﴿٢﴾... سورة المائدة
"اور نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں تم ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو کچھ شک نہیں کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔"
ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اپنی رضا کے کاموں کے کرنے کی اور اسے ناراض کرنے والے اسباب سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
[1] صحیح بخاری، البیوع، باب موکل الربا...الخ، حدیث: 2086
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج2 ص527
محدث فتویٰ