کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1865
سودی بینکوں میں کام گناہ میں تعاون ہے
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
میرا ایک چچا زاد بھائی ایک بینک میں کلرک کے طورع پر کام کرتا ہے۔ اسے بعض علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ وہ یہ کام نہ کرے اور اسے چھوڑ کر کوئی اور ملازمت تلاش کرے۔ آپ رہنمائی فرمائیں، کیا اس کے لیے بینک میں کام کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جزاکم اللہ خیرا
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ!
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
جنہوں نے مذکورہ فتویٰ دیا ہے انہوں نے بہت اچھا فتویٰ دیا ہے کیونکہ سودی بینکوں میں کام کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ گناہ اور ظلم کی باتوں میں تعاون ہے اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَتَعاوَنوا عَلَی البِرِّ وَالتَّقویٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَی الإِثمِ وَالعُدوٰنِ...٢﴾.... سورة المائدة
"اور نیکی اور پیرہیز گاری کے کاموں میں تم ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو۔"
اور صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے اور کھلانے والے، لکھنے والے اور دونوں گواہی دینے والوں پر لعنت کی اور فرمایا:
(ہم سواء) (صحیح مسلم‘ المساقاة‘ باب لعن آکل الربا ومؤکلہ‘ ح: 1598)
"یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔"
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج2 ص520
محدث فتویٰ