کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1862
سودی بینکوں کے ساتھ لین دین کے بارے میں حکم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ درج ذیل لوگوں کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟ ٭جو اپنا سرمایہ بینک میں رکھتا اور سال ختم ہونے پر سود لیتا ہے۔ ٭جو بینک سے سود پر قرض لیتا ہے۔ ٭جو شخص بینک میں سرمایہ تو رکھتا ہے لیکن سود نہیں لیتا۔ ٭وہ صاحب جائیداد جو اپنی عمارتیں بینکوں کو کرایہ پر دیتا ہے۔  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! بینکوں میں سود پر سرمایہ رکھنا یا سود پر بینکوں سے قرض لینا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ صریحا ًسود ہے۔ سود پر بینکوں کے سوا کسی اور جگہ سرمایہ رکھنا بھی جائز نہیں ہے اور نہ کسی سے سود پر قرض لینا جائز ہے کیونکہ یہ تمام صورتیں اہل علم کے نزدیک حرام ہیں، اس لیے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَأَحَلَّ اللَّہُ البَیعَ وَحَرَّ‌مَ الرِّ‌بو‌ٰا...٢٧٥﴾... سورة البقرة "اور سودے کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔" اور فرمایا: ﴿یَمحَقُ اللَّہُ الرِّ‌بو‌ٰا وَیُر‌بِی الصَّدَقـٰتِ...٢٧٦... سورة البقرة "اللہ سود کو نابود (یعنی بے برکت) کرتا اور خیرات (کی برکت) بڑھاتا ہے۔" اور فرمایا: ﴿یـٰأَیُّہَا الَّذینَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّہَ وَذَر‌وا ما بَقِیَ مِنَ الرِّ‌بو‌ٰا إِن کُنتُم مُؤمِنینَ ﴿٢٧٨ فَإِن لَم تَفعَلوا فَأذَنوا بِحَر‌بٍ مِنَ اللَّہِ وَرَ‌سولِہِ ۖ وَإِن تُبتُم فَلَکُم رُ‌ءوسُ أَمو‌ٰلِکُم لا تَظلِمونَ وَلا تُظلَمونَ ﴿٢٧٩... سورة البقرة "اے مومنو! اللہ سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا اس کو چھوڑ دو، اگر ایسا نہ کرو گے تو خبردار ہو جاؤ (کہ تم) اللہ اور رسول سے جنگ کرنے کے لیے (تیار ہوتے ہو) اور اگر توبہ کر لو گے (اور سود چھوڑ دو گے) تو تم کو اپنی اصلی رقم لینے کا حق ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان ہو اور نہ تمہارا نقصان۔" پھر اس کے بعد ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَإِن کانَ ذو عُسرَ‌ةٍ فَنَظِرَ‌ةٌ إِلیٰ مَیسَرَ‌ةٍ...٢٨٠﴾... سورةالبقرة "اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہو تو (اسے) کشائش (کے حاصل ہونے تک) مہلت دو۔" اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تلقین فرمائی ہے کہ تنگ دست سے قرض کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے اور نہ یہ جائز ہے کہ مہلت کی وجہ سے اس پر اور مالی بوجھ ڈال دیا جائے بلکہ واجب یہ ہے کہ قرض ادا کرنے سے عاجز و قاصر ہونے کی صورت میں اسے مہلت دی جائے، تا آنکہ وہ آسانی سے قرج ادا کر دے، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر رحمت اور لطف و کرم ہے اور انہیں اس ظلم اور بدترین لالچ سے بچانا ہے جو ان کے لیے سراسر نقصان دہ ہے اور ان کے لیے ذرہ بھر فائدہ مند نہیں۔ بینکوں میں سود کے بغیر سرمایا رکھنے میں کوئی حرج نہیں، جبکہ مسلمان اس کے لیے مجبور ہو، البتہ سودی بینکوں میں کام کرنا ہرگز جائز نہیں ہے، خواہ کوئی مینجر کے طور پر کام کرے یا کلرک کے طور پر یا اکاؤنٹینٹ کے طور پر یا کسی اور طور پر کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَتَعاوَنوا عَلَی البِرِّ‌ وَالتَّقویٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَی الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّہَ ۖ إِنَّ اللَّہَ شَدیدُ العِقابِ ﴿٢﴾... سورة المائدة "اور نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تم ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، کچھ شک نہیں کہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔" اور حدیث سے ثابت ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور دونوں گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔" اور فرمایا: (ہم سواء) (صحیح مسلم‘ المساقاة‘ باب لعن آکل الربا ومؤکلہ‘ ح: 1598) "یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔" گناہوں پر تعاون کی حرمت پر دلالت کرنے والی آیات اور احادیث بہت سی ہیں، انہی مذکورہ دلائل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جائیداد کے مالکان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ سودی کاروبار کرنے والے بینکوں کو کرایہ پر اپنی عمارتیں دیں کیونکہ یہ بھی سودی کاموں پر اعانت ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم سب کو ہدایت سے سرفراز فرمائے، حاکم اور محکوم سب مسلمانوں کو سود سے جنگ کی توفیق بخشے اور انہی شرعی معاملات پر اکتفاء کرنے کی توفیق بخشے جن کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مباح قرار دیا ہے، بے شک وہی قادر و کارساز ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج2 ص510 فتوی کمیٹی