کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1855
یہ سود کے لیے حیلہ ہے السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ مجھے سعودیہ کے ایک شہر میں مکان بنانے کے لیے قرض کی ضرورت محسوس ہوئی تو میں ایک شخص کے پاس گیا اور اس سے میں نے قرض مانگا، تو اس نے کہا کہ میں تجھے گاڑی دیتا ہوں یہ کہہ کر اس نے مجھے بارہ ہزار ریال دئیے لیکن اپنے پاس اس نے اکیس ہزار لکھ لیے حالانکہ میں نے نہ کوئی گاڑی دیکھی اور نہ مجھے اس کے رنگ ہی کا علم ہے۔ اس نے فقط اس کی رسید لکھی اور مجھے کہا کہ ہر ماہ ایک ہزار ریال دے دیا کرو، اس وقت تو میں راضی ہو گیا کیونکہ میں محتاج تھا اور مجھے رقم کی ضرورت تھی لیکن اب جب کہ میں ساڑھے آٹھ ہزار ریال دے چکا ہوں تو پھر بھی میرے ذمہ بارہ ہزار پانچ سو ریال باقی ہیں تو سوال یہ ہے کہ اس کے راس المال سے زائد رقم ادا کرنا بھی کیا میرے لیے لازم ہے؟ امید ہے رہنمائی فرمائیں گے، جزاکم اللہ خیرا  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! جب امر واقع اسی طرح ہے جسے سائل نے ذکر کیا ہے تو یہ معاملہ بالکل باطل ہے کیونکہ اس میں ربا الفضل بھی ہے اور ربا النسیئہ بھی۔ لہذا جس نے آپ کو قرض دیا ہے اسے صرف اپنا راس المال بھی بارہ ہزار ریال ہی لینے چاہئیں کیونکہ اس نے آپ کو گاڑی نہیں دی اور نہ اسے بیچا ہے جیسا کہ آپ نے ذکر کیا ہے بلکہ اس نے تو آپ کو دراہم کے بدلے دراہم دئیے ہیں لہذا اس صورت میں آپ سے زیادہ لینا بالکل غلط اور صریحا سود ہے۔ لہذا تم دونوں کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرنی چاہیے اور آئندہ کبھی بھی اس طرح کا معاملہ نہیں کرنا چاہیے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ دونوں کی توبہ کو قبرل فرمائے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب محدث فتوی فتوی کمیٹی