کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 184
اپنی طرف سے وقت اور تعداد مقرر کرنا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ  گزارش ہے کہ مجھے اس باتے میں فتوی دین کہ میں عشاء کی نماز کے بعد وتر پڑھ کر سورۃ الفاتحہ بار بار پڑھتا ہوا وار اس میں کسی تعداد کا تعین نہیں کرتا ۔ مثلاً سو بار ہوجائے یا زیادہ تعداد مقرر رکتا ہوںوقت متعین کرتاہوں واضح کریں کہ میں قرآن کریم ہمیشہ اس نیت سے پڑھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے زیادہ اجرو ثواب حاصل ہو،کیا میرا یہ عمل بدعت قراردیاجائے گا؟  میں فاتحہ پڑھنے کے بعد توبہ استغفار کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ سے ہدایت اور بخشش کی دعاکرتاہوں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کو اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی توفیق بخشے۔ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلافم ہے اور اللہ تعالیٰ کا کلام بندوں کے کلام سے اس طرح افضل ہے جس طرح خود اللہ تعالیٰ کی ذات بندوں سے افضل ہے ۔ تلاوت قرآن مجید کی فضیلت اتنی زیادہ ہے کہ اس کی صحیح مقدار اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں لیکن تلاوت کرنے والے کوایسا نہیں کرنا چاہے کہ کسی خاص مقصد کے لیے کوئی سورت یا آیت تلاوت کے لیے خاص کرلی۔ مگر جو چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص کردی ہیں ان پر عمل کرتے ہوئے اس تخصیص کا لحاظ چاہئے۔ مثلا ًدم جھاڑ کے لیے سورت الفاتحہ ، یانماز کی ہر رکعت میں سورت الفاتحہ پڑھنا ، سوتے وقت اس نیت سے آیت الکرسی پڑھنا کہ اللہ تعالیٰ اس (پڑھنے والے کو) شیطان سے محفوظ رکھے ، یا دم کرنے کے لیے سورت ’’ قل ہو اللہ احدo قل أعوذ برب الفلقo اور قل أعوذ برب الناس پڑھنا۔ اسی طرح کسی سورت یاآیت کو متعین تعداد میں دہرانا بھی درست نہیں الایہ کہ وہ نبیﷺ سے ثابت ہو ۔ کیونکہ یہ عبادت ہے اور عبادت میں شریعت کی طرف سے تعین کا خیال رکھنا چاہے۔ اس سے واض ہوتا ہے کہ رات کو وتر کے بعد بار بار پڑھنے کے لیے سورت الفاتحہ کی تخصیص بدعت ہے، اگرچہ تعداد کا تعین نہ کرے۔ کیونکہ یہ عمل نبی ﷺسے ثابت ہے نہ خلفائے راشدین میں سے ثابت ہے ۔ اس لیے بہتریہ ہے کہ فاتحہ کی یاوتر کے بعد پڑھنے کی تعین کے بغیر تلاوت کی جائے ۔ بلکہ مشروع توصر ف قرآن کریم کی بکثرت تلاوت کرنا ہے  خواہ وہ سورہ فاتحہ ہو یا کوئی اور مقام اسے کسی معین تعدادو وقت کے بغیر پڑھنا جائز ہے اور اس کے شریعت سے کوئی چیز ثابت ہوجائے تو درست ہے جیسے کہ پہلے وضاحت ہوچکی ۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ دارالسلام ج 1