کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1838
انعامی بانڈز کا حکم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کیا انعامی بانڈز کی رقم کھانا جائز ہے۔؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! انعامی بانڈز بیچ کر درحقیقت حکومت عوام سے قرض لیتی ہے، اور بانڈز کے نام سے قرض کی رسید جاری کرتی ہے ، قرض دینے پر لوگوں کو آمادہ کرنے کیلئے حکومت نے یہ اسکیم بنائی ہے، کہ پرائز بانڈ خرید نے والوں کو ان کی اصل رقم کی واپسی کے ساتھ کچھ اضافی رقم بھی بطور انعام دی جاتی ہے ،لیکن تمام قرض دہندگان کو نہیں، بلکہ وہ رقم بذریعہ قرعہ اندازی بعض خریداروں کو دی جاتی ہے ، اس میں سے جو رقم ملتی ہے ،وہ یقینی طور پرسود ہے، اس لئے ایسا معاملہ کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ اس میں سود ، جوا ، بیع ما لا یملک ، تینوں قباحتیں شامل ہیں ۔حکومت عوام سے لی گئی اس رقم کو سودی و غیر سودی کاروبار میں لگاتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والے سود کو لفظ "انعام" استعمال کر کے مختلف افراد میں تقسیم کرتی ہے۔ لہذا اس میں سود کا گند بھی شامل ہے ۔ اسی طرح جوئے کی جس طرح اور بہت سی اقسام ہیں انہی میں سے ایک قسم یہ بھی ہے کہ مختلف افراد ایک جیسی رقم ایک ہی کام پر لگائیں اور ان میں سے کسی کو منافع زیادہ حاصل ہو اور کسی کو کم یا کسی کو ملے اور کسی کو نہ ملے ، پرائزبانڈز میں یہی عمل کار فرما ہوتا ہے لہذا اس میں جوا بھی ہے ۔ اور پھر ان پرائز بانڈز کو آگے سے آگے بیچا جاتا ہے ۔ یعنی اصل زر بائع کے پاس نہیں ہوتا بلکہ اس کی رسید ہوتی ہے اور وہ اس رسید کو ہی فروخت کردیتا ہے ۔ یہ بھی شریعت اسلامیہ میں ممنوعہ کام ہے ۔ ان تین بڑی بڑی قباحتوں کی بناء پر یہ بانڈز اور ان کا کارو بار ناجائز و حرام ہیں ۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتوی کمیٹی محدث فتوی