کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 178
یہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سرا سر جھوٹ منسوب ہے السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ سائل قادریہ فر قہ کے متعلق معلومات چاہتاہے۔ وہ کہتاہے کہ اس نے اس گروہ کی ایک کتاب پڑھی ہے جس کا نام ہے: ’’الفیوضات الربانیة فی الماثر اولأدوار القادریة‘‘ اس میں قصیدہ ہے جس میں سلسلہ قادریہ کے پیر کے دعوے اور اقوال نقل کئے گئے ہیں۔ کیا یہ باتیں صحیح ہیں یا غلط؟ سائل نے سوال کے ساتھ قصیدہ بھی ارسال کیا ہے تاکہ اس کے مضامین کے بارے میں فتویٰ دیا جائے۔ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! سائل نے جو قصیدہ بھیجا ہے اور جس کے بارے میں معلوم کرنا چاہتاہے کہ اس میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ حق ہے یا باطل‘ اسے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصیدہ بنانے والاکوئی جاہل ہے جو اپنے متعلق ایسے دعوے کرتا ہے جو سب کے سب کفر وضلالت پر مشتمل ہیں۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ علماء کے تمام علوم اسی کے علم سے ماخوذ ہیں اور اسی کے علم کی شاخیں ہیں اور کہتا ہے کہ بندوں کا اخلاق وکردار اس کے فرض اور سنت قرار دئیے ہوئے اعمال کے مطابق ہونا چاہئے۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وعدہ نہ لے رکھا ہوتاتو وہ جہنم کے دروازے بھی بند کرسکتا تھا۔ جو مرید اس کا فادار ہوتا ہے وہ اس کی فریاد رسی کرتا ہے اور اسے مصیبتوں سے نجات دیتا ہے‘ وہ اسے دنیا اور آخرت میں زندہ کرتا ہے۔ اسے ہر قسم کے خوف سے محفوظ رکھتا ہے اور قیامت کے دن وہ اعمال کا وزن ہوتے وقت مریدوں کے ساتھ ہوگا۔ یہ جھوٹے دعوے کوئی جاہل شخص ہی کرسکتا ہے جو اپنے مقام سے واقف نہیں۔ کیونکہ کامل علم تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے اور آخرت کے تمام معاملات اور تمام کنٹرول صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس نے یہ اختیارات کسی مقرب فرشتے کو دئیے ہیں نہ کسی نبی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو او رنہ کسی ولی کو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے اشرف ترین فرد یعنی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ امت کو اللہ کا یہ فرمان پڑھ کر سنادیں: ﴿قُل لَّا أَمْلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـہُ ۚ وَلَوْ کُنتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِیرٌ وَبَشِیرٌ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ﴿١٨٨﴾...الأعراف ’’(اے پیغمبر!) فرما دیجئے میں اپنی ذات کے نفع اور نقصان کا مالک بھی نہیں‘ مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی بھلائی حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ چھوتی۔ میں تو صرف ڈرانے والا اور خوشخبری دینے ولا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان لاتے ہیں۔‘‘ ﴿قُلْ إِنِّی لَا أَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا﴿٢١﴾ قُلْ إِنِّی لَن یُجِیرَنِی مِنَ اللَّـہِ أَحَدٌ وَلَنْ أَجِدَ مِن دُونِہِ مُلْتَحَدًا ﴿٢٢﴾...الجن ’’(اے پیغمبر!) کہہ دیجئے! میں تم لوگوں کے لئے نقصان کا مالک ہوں نہ ہدایت کا۔ مجھے اللہ (کے غضب) سے کوئی پناہ نہیں دے گا۔ نہ اس کے سوا مجھے کوئی جائے پناہ ملے گی۔‘‘ وہ حضرات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی گہرا تعلق رکھتے تھے‘ جن کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی رشتہ تھا‘ جو کے حسن سلوک کے سب سے زیادہ مستحق تھے‘ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی حکم دیا ہے کہ مجھ پر ایمان اور شریعت پر عمل کے ذریعے جو خود کو اللہ کے عذاب سے بچالیں‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ بھی بتایا کیہ اللہ کے غضب سے بچانے کے لئے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے کام نہیں آئیں گے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتایا کہ قیامت کے دن نوح‘ ابراہیم‘ موسیٰ اور عیسیٰ بھی نفسی نفسی پکاریں گے۔ تو سلسلہ قادریہ کا پیر یا مخلوقات میں سے کوئی اور فرد کس طرح اپنے مریدوں کو چھڑا سکتاہے؟ اور کس طرح اپنا عہد پورا کرنے والوں کی حفاظت اور فریاد ر سی کرسکتا ہے؟ اور قیامت کو اعمال تو لے جانے کے وقت ان کا ساتھ دے سکتا ہے؟ اسے کس طرح یہ اختیار حاصل ہو سکتا ہے کہ جہنم کے دروازے بند کردے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ واضح بہتان ہے اور رب العالمین کی شریعت کا صاف صاف انکار۔ یہ عقیدہ رکھنے والے نے غلو میں عقل وشرع کی تمام سرحدیں پار کر ڈالی ہیں۔ وہ دعویٰ کرتا ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی تخلیق کائنات سے قبل نور محمدی کے ساتھ موجود تھے اور جب قاب قوسین والی ملاقات ہوئی تو عبدالقادر بھی دوستوں کی اس ملاقات میں شریک تھے۔ وہ کہتا ہے کہ آپ نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں تھے اور انہوں نے اپنی قدرت کی ہتھیلی پر طوفان کا نظارہ کیا اور وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تھے جب انہیں آگ میں ڈالا گیا اور وہ آگ ان کی دعا ہی سے ٹھنڈی ہوئی تھی اور اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ تھے اور اسماعیل کی جگہ قربانی کے لئے مینڈھا ان کی بہادری یا ان کے فتویٰ کی وجہ سے نازل ہوا اور جب یعقوب علیہ السلام کی نظر ختم ہوگئی تو عبدالقادرجیلانی اس وقت ان کے ساتھ تھے اور ان کے لعاب دہن کی وجہ سے حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس آئی۔ ادریس علیہ السلام کو جنت میں انہوں نے ہی بٹھایا‘ جب موسیٰ علیہ السلام اللہ سے ہم کلامی کا شرف حاصل کرنے کے لئے گئے تھے تو شیخ عبدالقادر جیلانی بھی ان کے ساتھ تھے اور موسی علیہ السلام کا عصا ان کے عصا سے ہی بنایا گیا تھا‘ وہ گہوارے میں عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے۔ داؤد علیہ السلام کو بہترین آواز انہو ں نے دی تھی‘ بلکہ یہ (خبیث) اس سے بھی‘ برا دعویٰ کرتا ہے چنانچہ قصیدہ کے تین شعروں میں یہ دعویٰ کرتا ہے کہ عبدالقادر ہی اللہ ہیں۔ اس مفہوم کا سب سے واضح شعر یہ ہے: أَنَا الْوَاحِدُ الْفَرْدُ الْکَبِیرُ بِذَاتِہ                  أَنَا الْوَاصِفُ الْمَوْصُوفُ شَیْخُ الطَّرِیقَة ’’میں بذات خود واحد‘ اکیلا اور بڑا ہوں    میں تعریف کرنے والا ہوں اور میری ہی تعریف کی گئی ہے میں شیخ طریقت ہوں۔‘‘ تو اے فتویٰ پوچھنے والے بھائی! بری بات کا تو سننا ہی (اس کی برائی معلوم کرنے کے لئے) کافی ہوتا ہے۔ شیخ الطائفہ کی تعریف پر مبنی اس نظم میں جو بہتان‘ جھوٹ اور سرکشی بھری پڑی ہے اس کو دیکھنے کے بعد شیخ کی سیرت وتاریخ کے تفصیلی مطالعہ کی ضرورت نہیں رہتی۔ آپ کوشش کریں کہ قرآن وحدیث سے حق کو سمجھیں اور سلف صالحین یعنی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین وتابعین کرام رحمہم اللہ نے قرآن وسنت کی جو تشریح کی ہے اسی کامطالعہ کریں۔ ویسے ہمیں یقین  ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ جن کی طرف یہ قصیدہ منسوب کیا جاتاہے‘ ان کا اس سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا بھیڑئیے کا یوسف علیہ السلام کے خون سے تھا۔ آپ کے نام لیوا جھوٹی باتیں بنا کر آپ کی طرف منسوب کردیتے ہیں حالانکہ وہ ایسی باتوں سے بری ہیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ دارالسلام ج 1