کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 176
اگر اہل بدعت کے شرکا اندیشہ ہو تو کیا کیا جائے؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ نماز کا امام اگر بدعتی اور صوفیانہ طریقوں کا پیروکار ہو‘ خصوصاً تیجانی فرقہ سے متعلق امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے متعلق فقہاء کے اقوال ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ میں نے جناب شیخ عبدالرحمن بن یوسف افریقی سابق مدیر دارالحدیث مدینہ منورہ کا ایک رسالہ پڑھا ہے جس کا نام ہے ’’الأنور الرحمانیة فی ھدایة الفرقة التیجانیة‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اس جماعت کے عقائد درست نہیں‘ اللہ تعالیٰ انہیں سیدھی راہ دکھائے (آمین)۔ وہ قرآن مجید پر ایمان لانے‘ ا س کی تصدیق کرنے اور اس کے رسول مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے اتباع کی نسبت شرک اور گمراہی سے زیادہ قریب ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا تیجانی طریقہ پر عمل کرنے والے بدعتی امام کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو اگر شہر میں کوئی مسجد نہ ہو جس کا امام بدعتی نہ ہو تو کیا ایک مسلمان گھر میں اپنے افراد خانہ کے ساتھ مل کر باجماعت نماز ادا کرسکتا ہے؟ کیا یہ جائز ہے کہ مسجد میں جب تیجانی بدعتی امام نماز پڑھا کر فارغ ہوجائے تو اس مسجد میں الگ جماعت کرالی جائے؟ جب کہ اس کا نتیجہ مسلمانوں میں افتراق اور ذہنی انتشار کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! تیجانی فرقہ‘ کفر‘ بدعت اور گمراہی میں تمام فرقوں سے بڑھا ہوا ہے‘ لہٰذا ایسے امام کے پیچھے نماز نہیں ہوتی جو ان کے طریقہ سے تعلق رکتھا ہو اور مسلمان ایسا امام تلاش کرسکتا ہے جو تیجانی وغیرہ فرقوں میں سے نہ ہو‘ جن کی عبادتیں اور ا عمال حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت سے خالی ہیں۔ اگر غیر بدعتی نہ ملے تو مسلمانوں کی کسی مسجد میں جماعت کرالی جائے بشرطیکہ فتنہ کا اور بدعتوں کی طرف سے تکلیف پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو۔ اگر رہائش ایسے علاقے میں ہو جہاں اہل بدعت کا زور ہے تو اپنے گھر میں یا کسی جگہ جماعت قائم کرلیں جہاں تکلیف پہنچنے کا خطرہ نہ ہو اور اگر یہ ممکن ہ وکہ آپ اپنی رہائش کسی ایسے شہر میں منتقل کرلیں جہاں سنت پر عمل کیا جاتا ہو اور بدعتوں کا مقابلہ کیا جاتا ہو‘ پھر آپ کو ضرور وہاں منتقل ہوجانا چاہئے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ دارالسلام ج 1