کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1752
سائل نے اپنی زمین ٹھیکے پر دے رکھی تھی.... الخ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ درج ذیل صورت میں اسلام کیا ہدایت دیتا ہے وضاحت فرمائیں؟سائل نے اپنی زمین ٹھیکہ پر دے رکھی تھی اور اس کی میعاد سن1973 میں ختم ہوناتھی لیکن چند وجوہات کی بنا پر سائل نے زمین فروخت کرنا چاہی تو ایک آدمی نے اڑھائی ہزار روپیہ ایکڑ زمین خریدنے کی پیش کش کی اور سائلل نے اس سے بیعانہ لے کر زمین کی جسٹری کی تاریخ طے کرلی۔لیکن ایک آدمی جو کہ بڑی معیشت کا مالک تھا اس نے زمین خرید نے والے کو دبائو کے زریعے سودے سے منحرف کردیا اوربندہ کی مجبوری سےفائدہ اٹھاتے ہوئے وہی زمین دوہزار روپے کلہ میں خریدلی اور پھرچار سال قبل از میعاد زبردستی مین کا قبضہ لے لیا اور سائل کی زمین کی رقم سے ایک ہزازر روپیہ غبن کرلیا۔اس تحریر کی روشنی میں اسلام کی رو سے فتوی عائد کریں کہ آیا یہ بیع جائز ہے یا نہیں اور اگر جائز تھی تو کیونکر؟(المستفتی خدا بخش لائل پوری( الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! سوال میں جس دوسرے مشتری کا زمکر ہے ان کاطریقہ عمل شریعت کے خلاف ہے۔کیونکہ مالک زمین کا اپنی زمین کوایک آدمی کے نام روخت کرنے کے بعد دوسرے آدمی کی یہ دخل اندازی قرآن و احدیث کے خلاف ہے۔اور دوسرے آدمی کا قبضہ مالک کی اجازت کے بغیر ناجائز ہے۔مالک کی اجازت کے بغیر اس کے مال پر بغیر رضا مندی کے قبضہ کرنا قرآن وحدیث کے بالکل خلاف ہے اور ظلم ہے اس شخص کو چاہیے کہ اس زمین کو واپس کردیں یا مالک کو اور پہلے خریدار کو راضی کریں۔(الراقم ابو البرکات احمد جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ 4 ربیع الاول سن1393ھ)(العبد حافظ محمد گوندلوی 1393ھ( حدیث ہذا البیع لا یجوذ لقول رسول اللہ صلی اللہعلیہ وسلم لا بیع بعضکمعلی بیع بعض و فی روایة علی بیع اخیہالا اذا کان بکر شریکا لزید وارادان یشفع فلہ ذلک (واللہ اعلم علی مشرف العمری( یعنی یہ بیع جائز نہیں ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!کہ تم میں سے کوئی کسی کےاور  ایک روایت میں اپنے بھائی کے سود ے پر سودا نہ کرے۔(علی مشرف الئمری)(اخبار الاعتصام جلد 2 شمارہ 38( فتاویٰ علمائے حدیث جلد 14 ص 150 محدث فتویٰ