کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1696
بیع و شرا وادوست کرنا دانستہ یا نا دانستہ ..الخ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ سودی  روپیہ لے کر تجارت کرنا حرام اور گنا ہ ہے۔اس واسطے کے سود حرام اور قطعی ہے۔لینے والے اور دینے والے اور گواہ ہونے والے اور تمسک لکھنے والے پر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے۔عن جابر قال لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ قال ہم سواء (رواہ مسلم فی المشکواۃ) اور فرمایا رسول اللہ صلی ٰ اللہ علیہ وسلم نے کے سود کے گناہ ستر حصے ہیں۔ان کا آسان حصہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔عن ابی ہریرہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الربا سبعون جزوء الیسر ہا ان ینکح الرجل بامہ رواہ ابن ماجہ والبیہقی کذا فی المشکواة اور مال حاصل کردہ سودی روپیہ سے ناپاک ہے۔اس واسطے کے جب سبب حرام و نامشروع ٹھہرا تو جو چیز اس سے حاصل ہوگی۔وہ بھی اس کے حکم میں ہوگی۔ سید محمد نذیر حسین زشراف سید کونین شد شریف حسین  (فتاوی ثنائیہ جلد 2 صفحہ نمبر 135) کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلے میں کہ بیع و شرا وادوست کرنا دانستہ یا نا دانستہ سود خوار سے کہ اکثر مال اس کا جائز ہےیا ناجائز بحوالہ کتب فقہ جواب تحریر فرمایا جاوے۔بینوا توجروا الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! دانستہ بیع و شرا و داود ستد سود خوار سے کہ اکثر مال اس کا حرام ہے جائز نہیں اور نادانستہ موجب حرمت و معصیت کا نہیں۔حدیث الحرمة تنتقل بالعلم کذافی الدر المختار وغیرہ ۔واللہ اعلم بالصواب حررہ السید شریف حسین عفی عنہ (فتاوی نزیریہ جلد 2 ص 42) سید محمد نذیر حسین زشرف سید کرنین شد شریف حسین  (فتاوی ثنائیہ۔جلد 2 ص145)  فتاویٰ علمائے حدیث جلد 14 ص 101 محدث فتویٰ