کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 159
عورت بال کٹا سکتی ہے؟
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
ہنسلو سے ایک بہن پو چھتی ہے۔ عورتوں کےلئے بال کٹوانے کا کیا حکم ہے؟
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ!
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
جہاں تک عورتوں کے بال کٹوانے کا مسئلہ ہے تو موجودہ دور میں یہ فیشن اور مغرب کی تقلید میں کیا جاتا ہے اور عام طور پر وہی عورتیں بال کٹواتی ہیں جو مغربی تہذیب کی دلدادہ ہوتی ہیں اور اسلامی تعلیمات سے انہیں زیادہ لگاؤنہیں ہوتا وہ صرف فیشن اور اپنے حسن کی نمائش کےلئے یہ سب کچھ کرتی ہیں۔ چونکہ وہ بال غیروں کے سامنے حسن نمائی کے لئے کٹوانی ہیں اس لئے اس کے بعد وہ دوپٹے یا چادر سے بھی اپنےآپ کو آزاد کرلیتی ہیں۔ اس طرح ایک برائی سے ایک دوسری برائی جنم لیتی ہے جو پہلی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔آزاد خیال عورتیں یہ سارےکام شمع محفل بننے کے شوق میں کرتی ہیں نہ کہ اسلامی تعلیم کی روشنی میں ۔ اس لئے اس عمل کو کسی شکل میں بھی جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ سوائے اس کے کہ کسی عورت کو بیماری یا کسی دوسری مجبوری کی وجہ سے بال کٹوانے پڑ جائیں تو یہ الگ بات ہے۔
کسی دوسری قوم کےایسے فعل کی نقل کرنا جس میں مسلمانوں کا دینی یا دنیاوی کوئی فائدہ بھی نہ ہو ہرگز جائز قرار نہیں دیاجاسکتا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :من تشبہ بقوم فھو منھم۔ (المعجم الاوسط للطبرانی۔۹ ص ۱۵۱ رقم الحدیث ۸۳۲۳)
جس نےکسی دوسری قوم کی نقل کی تو گویا کہ وہ انہی میں سے ہے۔ کیونکہ وہ ان کےاعمال و افعال اور تہذیب و تمدن کو بہتر و برتر سمجھتا ہے اور بھی متعدد احادیث میں یہود ونصاریٰ اور غیر مسلموں کی نقل اور تقلید سے منع کیا گیا ہے۔
ایک اور لحاظ سے بھی بال کٹوانے کافعل ناجائز قرار دیا جاسکتا ہے کہ ایسی عورتیں بالوں کا اسٹائل مردوں کی طرح بنالیتی ہیں اور بعض اوقات تو مردو عورت میں پہچان بھی مشکل ہوجاتی ہے’ اس انداز سے بال کٹوائے جاتےہیں۔ جب کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روش سے بھی منع فرمایا ہے۔
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ
لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المتشبہین من الرجال بالنساء والمتشبہات من النساء بالرجال۔ (مشکوة للالبانی ج ۲ کتاب اللباس باب الترجل رقم الحدیث ۴۴۲۹)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت فرمائی جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتےہیں۔
اور ان عورتوں پر بھی لعنت فرمائی جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں۔
اب اس میں لباس’چال چلن’بول چال اور بالوں کی تراش خراش سب کچھ آجاتا ہے۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اظہار زینت کےلئے غیروں کے سامنے جسم کے کسی حصے کی بھی نمائش عورت کےلئے حرام ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بال کٹوا کر پھر انہیں دکھانےکےلئے ایسی عورتیں اکثرو پیشتر دوپٹے یا چادر سےبے نیاز ہوجاتی ہیں۔ تو اس انداز سے اظہار زینت نص قرآنی سےحرام و ممنوع قرار دیاگیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے
﴿وَلا یُبدینَ زینَتَہُنَّ إِلّا لِبُعولَتِہِنَّ أَو ءابائِہِنَّ أَو ءاباءِ بُعولَتِہِنَّ أَو أَبنائِہِنَّ أَو أَبناءِ بُعولَتِہِنَّ أَو إِخوٰنِہِنَّ أَو بَنی إِخوٰنِہِنَّ أَو بَنی أَخَوٰتِہِنَّ أَو نِسائِہِنَّ أَو ما مَلَکَت أَیمـٰنُہُنَّ أَوِ التّـٰبِعینَ غَیرِ أُولِی الإِربَةِ مِنَ الرِّجالِ أَوِ الطِّفلِ الَّذینَ لَم یَظہَروا عَلیٰ عَورٰتِ النِّساءِ...﴿٣١﴾... سورةالنور
‘‘اور وہ (عورتیں) اپنا بناؤسنگھار ان لوگوں کے سوا کسی کےسامنے ظاہر نہ کریں اپنےخاوند’اپنے باپ’ خاوند کےباپ ’اپنے بیٹے ’خاوند کے بیٹے’ بھائی’ بھائیوں کےبیٹے’ بہنوں کےبیٹے ’اپنے میل جول کی عورتیں اپنے غلام’وہ مرد جو کسی قسم کی خواہش نہ رکھتےہوں اور بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے واقف نہ ہوں۔’’
اب مندرجہ بالا رشتوں کےسوا عورت کےلئے اپنےسر ’بازوؤں یاپنڈلیوں کی نمائش کسی کےسامنے جائز ہے نہ تنہائی میں نہ کسی عام اجتماع یامجلس میں ۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےبھی اس بارے میں سخت وعید آئی ہے جب کہ بال کٹوانے سےاکثر و بیشتر مقصود ہی نمائش ہوتاہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ صراط مستقیم
ص461