کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1588
(2)کیا چڑھاوے کے سانڈ حلال ہیں یا نہیں؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ کیا حکم ہے درباب حلت و حرمت اُن سانڈوں کے جس کے صاحب کا یعنی چھوڑنے والے کا کچھ پتہ و نشان نہیں اور دوسرے ہنود اس کے ذبح کرنے میں مانع ہوتے ہیں اور ان پاٹھیوں کا جس کو ہندو گنگا کو چڑھا دیتے ہیں اور ان غلوں کا جو چڑھائے گئے ہیں قبور و اوثان پر۔ بینوا توجروا۔ اور یہ سب ما أھل بہ لغیر اللہ میں داخل ہیں یا نہیں؟ (دراصل یہ استفتا استاذ الاساتذہ حضرت حافظ محمد عبداللہ غازی پوری رحمہ اللہ کی خدمت میں پیش کیا گیا، جس کا انھوں نے ’’ الحجة الساطعة فی بیان البحیرة والسائبة‘‘ کے نام سے مفصل جواب تحریر فرمایا۔ آپ لکھتے ہیں کہ ’’ اگرچہ سانڈوں اور پاٹھیوں کا چھوڑنا اور غلوں کا چڑھانا محض ناجائز افعال اور بڑے گناہ کے کام ہیں، بلکہ عین کفر و شرک ہیں، لیکن یہ سانڈ اور یہ پاٹھی اور یہ غلے جو غیر اللہ کے نام پر چھوڑے گئے یا چڑھائے گئے ہیں، سب حلال ہیں۔ کوئی ان میں سے بمجرد غیر اللہ کے نام پر چھوڑے جانے اور چڑھائے جانے کے حرام نہیں ہوا۔‘‘ اس کے بعد انھوں نے تفصیلی دلائل سے ثابت کیا ہے کہ یہ فعل اگرچہ شرک ہے، لیکن یہ جانور حلال ہیں ، جس کی تائید میں متعدد علما: مولانا عبدالرحمن محدث مبارک پوری، مولانا شہود الحق عظیم آبادی، مولانا ابو الحسنات عبدالحی لکھنوی، مولانا محمد شبلی حنفی، مولانا محمد حفیظ اللہ ندوی رحمہم اللہ وغیرہ نے تصدیقات رقم کی ہیں۔ مولانا شمس الحق محدث عظیم آبادی رحمہ اللہ کا مندرجہ بالا تائیدی فتویٰ بھی اسی جواب کے آخر میں مطبوع ہے۔ دیکھیں: الحجۃ الساطعۃ (ص : ۱۵)  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!  فی الواقع سانڈ حلال طیب ہے، کیوں کہ از روے آیات و احادیث کے تمام صحابہ اور علماء تابعین و ائمہ مجتہدین نے سانڈ کو حلال فرمایا ہے۔ اس کا بیان تمام کتبِ تفاسیر میں موجود ہے۔ حررہ         أبو الطیب محمد شمس الحق عظیم آبادی  ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب مجموعہ مقالات، و فتاویٰ صفحہ نمبر 83