کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 158
غیر محرم خواتین کو سلام کہنا جائز ہے؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ لیوٹن سے مقبول احمد کاظمی تحریر کرتے ہیں کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر محرم اور پردہ دار خواتین کو سلام کرنے سے منع فرمایا ہے؟ مکمل حدیث لکھ کر شکریئے کا موقع دیں۔ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! جہاں تک قرآن و حدیث کےعمومی دلائل کا تعلق ہےتو اس میں سلام کہنےاور جواب دینے میں مردو عورت یا محرم و غیر  محرم کا کوئی فرق نہیں ہے۔ اس بارے میں قرآن کی یہ آیت خاص طور پر قابل غور ہے ﴿وَإِذا حُیّیتُم بِتَحِیَّةٍ فَحَیّوا بِأَحسَنَ مِنہا أَو رُ‌دّوہا ... ﴿٨٦﴾... سورةالنساء اور جب تمہیں کوئی سلام کے الفاظ کہےتو تم بھی جواب میں اس سے بہتر سلامتی کے کلمات کہو یا اس کے الفاظ لوٹادو۔ اب اس آیت میں مردو عورتیں سب شامل ہیں اورکسی دوسری آیت یا حدیث میں مزید کوئی   وضاحت بھی نہیں جس سے فرق معلوم ہوتا ہو۔ امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ ‘‘شرح السنہ’’ میں یہ حدیث لائے ہیں: عن جریر بن عبداللہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم مرعلی نسوة فسلم علیہن۔ (مسند احمد ۳۵۷/۲ شرح السنة ۲۶۵/۱۲ رقم ۳۳۰۸) حضرت جریر بن عبداللہ روایت کرتےہیں کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے پاس سے گزرے تو آپ نے انہیں سلام کیا۔ اور بہت سی روایات اور اقوال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دور نبوی میں مرد عورتوں کو سلام کہتے تھے ۔ لیکن اس کے ساتھ بعض تابعین ائمہ کےایسے اقوال بھی امام بغوی نے نقل کئےہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص مقصد یا حکمت کا تقاضا ہو تو مردوں کو عورتوں سے علیک سلیک کرنےمیں احتیاط برتنا چاہئے۔ مثلاً عورت اکیلی ہے اور یہ خدشہ ہےکہ سلام کہنے سے مزید  گفتگو کا دروازہ کھل جائے گا اور نوبت غلط خیالات و تصورات تک پہنچ جائے گی تو پھر احتیاط ہی بہتر ہے’یعنی اگر کسی فتنے یاخرابی کا اندیشہ ہوتو پھر غیر محرم عورتوں کو سلام کرنے  سےاجتناب کرنا چاہئےبصورت دیگر اس میں کوئی ممانعت یاقباحت نہیں۔ بہرحال یہ سارے احتیاط کے تقاضے ہیں جنہیں اگر ملحوظ رکھا جائے تو بہتر ہے’عمومی طورپر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ صراط مستقیم ص459