کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 153
کوثری کا ایک بڑا جھوٹ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ محمد زاہد الکوثری (متوفی۱۳۷۱ھ) نے تاریخ بغداد للخطیب البغدادی کی ایک روایت کے بارے میں لکھا ہے: ’’اور اس واقعہ کی سند میں بہت سے مشکوک راوی ہیں اور ابومحمد بن حیان جو ہے وہ ابوالشیخ ہے جس کی کتاب العظمۃ اور کتاب السنۃ ہیں اور ان دونوں کتابوں میں ایسے من گھڑت واقعات ہیں جو کسی اور میں نہیں ملتے اور اس کو اس کے ہم وطن الحافظ العسال نے ضعیف کہا ہے۔‘‘ (ابوحنیفہ کا عادلانہ دفاع، ترجمہ تانیب الخطیب ص۵۳ ادتانیب الخطیب ص۴۹) کیا یہ سچ ہے کہ حافظ ابواحمد العسال نے ابوالشیخ الاصبہانی کو ضعیف کہا ہے؟ مہربانی فرما کر، تحقیق کرکے جواب دیں۔ جزاکم اللہ خیرا الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! تانیب الخطیب وہ کتاب ہے جسے محمدزاہدکوثری نے خطیب بغدادی کے رد میں لکھا ہے۔ سرفراز خان صفدردیوبندی کے بیٹے عبدالقدوس قارن دیوبندی نے اس کا ترجمہ ’’ابوحنیفہ کا عادلانہ دفاع‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ تانیب الخطیب کا رد الشیخ عبدالرحمٰن بن یحییٰ المعلمی الیمانی (متوفی ۱۳۸۶ھ) نے ’’التنکیل لما ورد فی تانیب الکوثری من الباطیل‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں لکھا ہے، جس کے جواب الجواب سے ساری کوثری پارٹی عاجز و ساکت ہے۔ والحمدللہ سب سے پہلے عبدالقدوس قارن دیوبندی کی علمی حیثیت پیشِ خدمت ہے: ۱: کوثری نے تانیب میں خلد بن عبداللہ القسری کے بارے میں لکھا ہے: ’’والقسری ہذا ہوا الذی بن کنیسة لامہ تتعبد فیہا وہوالذی یقال عنہ انہ ذبح الجعد بن درہم یوم عیدالاضحی اضحیة عنہ والخبر علی انتشارہ وذیوعہ غیرثابت‘‘ (ص۶۲) اس کا ترجمہ کرتے ہوئے عبدالقدوس نے لکھا ہے: ’’اور یہ القسری وہ ہے جس نے اپنی ماں کے لیے گرجا بنایا تھا جس میں وہ عبادت کیا کرتی تھی۔ اور یہ وہی ہے جس کے بارے میں کہا گیا کہ عیدالاضحیٰ کے دن الجعد بن درہم نے اس کی طرف سے قربانی کا جانور ذبح کیا تھا۔ اور یہ واقعہ مشہور ہونے اور پھیل جانے کے باوجود ثابت نہیں ہے۔۔۔‘‘ (ابوحنیفہ کا عادلانہ دفاع ص۱۷۸) عبدالقدوس کی یہ بات کہ ’’عیدالاضحیٰ کے دن الجعد بن درہم نے اس (خالد القسری) کی طرف سے قربانی کا جانور ذبح کیا تھا‘‘ بڑی عجیب و غریب اور نایاب دریافت ہے۔ حالانکہ محولہ عبارت اور اس کا صحیح ترجمہ درج ذیل ہے: ’’انہ ذبح الجعد بن درہم یوم عیدالاضحی اضحیة عنہ‘‘ بے شک اس نے اپنی طرف سے جعد بن درہم کو عیدالاضحیٰ کے دن (بطور) قربانی ذبح کیا۔ کوثری کے نزدیک مشہور اور غیرثابت واقعہ تو یہ ہے کہ خالد القسری نے عیدالاضحیٰ کے دن، اپنی طرف سے قربانی کے طور پر جعد بن درہم (ضال ومضل اور منکرِ صفات باری تعالیٰ) کو ذبح کیا تھا۔ جب کہ عبدالقدوس صاحب، یہ راگ الاپ رہے ہیں: ’’جعد بن درہم نے اس کی طرف سے قربانی کا جانور ذبح کیا تھا۔‘‘ سبحان اللہ! سرزمین حجاز اور کوفہ کے امیر خالد القسری کے بارے میں حافظ ذہبی (متوفی۷۴۸ھ) نے لکھا ہے: اس نے اضحیٰ والے دن کہا: ’’ضحوا تقبل اللہ منکم فانی مضح بالجعد بن درہم، زعم ان اللہ لم یتخذ ابراہیم خلیلا‘‘ الخ۔ (لوگو) تم قربانیاں کرو، اللہ تمہاری قربانیاں قبول کرے میں جعد بن درہم کی قربانی کرنے والا ہوں کیونکہ وہ کہتا ہے کہ اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو خلیل نہیں بنایا تھا۔ (سیر اعلام النبلاء ۵؍۴۳۲) یہ مشہور قصہ ثابت ہو یا نہ ہو، کوثری کی عبارت میں یہ بات ہرگز نہیں ہے کہ جعد بن درہم نے خالد کی طرف سے کوئی قربانی کی ہو۔ اگر عبدالقدوس قارن کو عربی نہیں آتی تو میزان الاعتدال (ج۱ص۳۹۹ ت۱۴۸۲) کی طرف ہی رجوع کرلیا ہوتا، جس میں لکھا ہوا ہے: ’’فقتل علی ذلک بالعراق یوم النحر‘‘ پس وہ (جعد بن درہم) اس (غلط عقیدے کی وجہ سے) عراق میں، قربانی والے دن قتل ہوگیا۔ الیس منکم رجل رشید؟ تنبیہ: خالد القسری کا اپنی ماں کے لیے کنیسہ (گرجا) بنانا ثابت نہیں ہے۔ ۲: عبدالقدوس قارن نے مولانا ارشاد الحق اثری کا رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اور دوسری بات کرنے میں تو اثری صاحب نے بے تکی کی حد ہی کردی جب وہ ذرا ہوش میں آئیں تو ان سے کوئی پوچھے کہ امام صاحبؒ کے جنازہ میں صرف احناف شریک تھے؟ دیگر مذاہب (مالکی، شافعی اور حنبلی وغیرہ) کے لوگ شریک نہ تھے۔ جب وہ لوگ شریک تھے اور ان کے نزدیک قبر پر جنازہ پڑھنا درست ہے اور انہوں نے اپنے مذہب کے مطابق عمل کیا تو اس پر اعتراض کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے؟‘‘ (مجذوبانہ واویلا ص۲۸۹ طبع اول جون ۱۹۹۵ مکتبہ صفدریہ نزد مدرسہ نصرۃ العلوم گھنٹہ گھر، گوجرانوالہ) تنبیہ:قارن صاحب کی عارت میں بریکٹیں ان کی طرف سے ہی لکھی گئی ہیں۔ عرض ہے کہ ۱۵۰ ہجری میں فوت ہونے والے امام ابوحنیفہ کے جنازہ میں امام شافعی (پیدائش ۱۵۰ھ) اور امام احمد (پیدائش ۱۶۴ھ) کے مقلدین کہاں سے آگئے تھے۔ کیا عالم غیب سے ان کا ظہور ہوا تھا؟ مدرسہ نصرت العلوم میں کوئی آدمی بھی ایسا نہیں جو یہ کہے کہ حضرت آپ کیا لکھ رہے ہیں؟ کیا آپ ہوش میں ہیں؟ اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ ابوالشیخ الاصبہانی اہلِ سنت کے مشہور ثقہ و صادق اماموں میں سے ہیں۔ ان کے تفصیلی حالات کے لیے سیراعلام النبلاء (۱۶؍۲۷۶۔ ۲۸۰) و تذکرۃ الحفاظ (۳؍۹۴۵۔۹۴۷) وغیرہما کتب کا مطالعہ کریں۔ امام ابن مردویہ نے ان کے بارے میں فرمایا: ’’ثقہ مامون‘‘ ابوالقاسم السوذرجانی نے کہا: ’’ہو احد عبداللہ الصالحین، ثقہ مامون‘‘ (النبلاء ۱۶؍۲۷۸) ان پر امام ابواحمد العسال (محمد بن احمد بن ابراہیم بن سلیمان) الاصبہانی کی جرح کسی مستند کتاب میں موجود نہیں ہے، کوثری نے امام عسال پر یہ جھوٹ بولا ہے کہ انھوں نے ابوالشیخ کو ضعیف کہا ہے۔ یہ جھوٹ کوثری نے باربار بولا ہے۔ دیکھئے تانیب (ص۶۹، ۱۴۱) ابوحنیفہ کا عادلانہ دفاع (ص۱۹۲، ۳۲۲) ذہبی عصر شیخ معلی رحمہ اللہ نے کوثری کے اس دعوے پر اعتراض کیا۔ (التنکیل ۱؍۳۱۸، ۳۱۹ ت۱۲۹) طلیعۃ التنکیل کے حاشیے پر ہے کہ مجلس شوری مکہ مکرمہ کے رکن شیخ سلیمان الصنیع نے اس سلسلے میں فرمایا: ’’وجوابی علی ذلک انی اجتمعت بالکوثری عدة مرات فی دارہ بمصر فی ذلک الحین وسالتہ عن ذلک فلم احصل علی نتیجة منہ ولوکان صادقا نسبہ الی ابی احمد العسال لاوضحہ لی حین سوالی لہ والذی یظہرلی ان الرجل یرتجل الکذب ویغالط‘‘ الخ اس پر میرا جواب یہ ہے کہ میں اس وقت مصر میں کوثری کے گھر میں کئی دفعہ اس کے ساتھ ملا اور اس سے اس کے بارے میں پوچھا تو مجھے اس سے کوئی نتیجہ (خیز جواب) حاصل نہیں ہوا۔ اگر وہ سچا ہوتا تو اس نے ابوحمد العسال کی طرف جو کچھ منسوب کیا ہے مجھے میرے سوال پر واضح طور پر دکھا دیتا۔ مجھ پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آدمی (کوثری) فی البدیہ جھوٹ بولتا اور مغالطے دیتا ہے۔ (طلیعۃ التنکیل ص۲۹) عبدالقدوس قارن اور تمام کوثری پارٹی سے عرض ہے کہ ابوالشیخ پر ابواحمد العسال کی تضعیف کا حوالہ پیش کرکے اپنے امام کوثری کو کذب و افتراء کے الزام سے بچانے کی کوشش کریں۔ ورنہ وہ اس کے جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) ج2ص424