کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1518
نقش والے جائے نماز برائے فروخت کیوں؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ساؤتھ آل (لندن ) سے قیوم عظیمی لکھتے ہیں:    دسمبر کے شمارے میں ان جائے نمازوں پر جن پر کعبہ شریف یا روضہ شریف وغیرہ کے نقش بنے ہوں نماز نہ پڑھنے کےمتعلق مضمون پڑھا۔ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد ذہن میں دو سوال ابھرے اول یہ کہ اگر یہ فتویٰ مان لیا جائے تو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ سعودی گورنمنٹ جو کہ اسلام سے قریب ترین حکومت سمجھی جاتی ہے’نے ایسی جائےنمازوں کی فروخت کی اجازت کیوں دے رکھی ہے۔دوم یہ کہ جن لوگوں کے پاس ایسا جائےنماز ہو وہ اس کو کیا کریں کیونکہ میرے پاس ایسی ایک مخملی جائےنماز ہے؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! آپ کا پہلا سوال یہ ہے کہ سعودی حکومت نے ان مصلوں کی پھر اجازت کیوں دے رکھی ہے۔ بنیادی بات تو یہ ہے کہ اسلام میں کسی کام کے حلال و حرام یا جائز و ناجائز ہونے کا معیار کسی حکومت کا عمل نہیں بلکہ کتاب و سنت ہے کوئی حکومت چاہے کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو اگر کسی ایک مسئلے میں وہ غلطی کرتی ہے تو ہمارے لئے ضروری نہیں کہ اس کو بھی جائز قرار دیں۔ سعودی حکومت بلاشبہ ایسے گئے گزرے دور میں بھی دوسرے ملکوں کے مقابلے میں اسلام کی بہت بہتر خدمت کررہی ہے اور اسلامی احکام پر وہاں عمل درآمد بھی ہورہا ہے اور اسلامی قوانین کا عملی نفاذ بھی وہاں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجودبعض معاملات میں ان سے کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں اور خود سعودی علما ءاس طرف حکومت کو توجہ دلاتے رہتے ہیں اور متعدد امور میں علماء کی نصیحت پر حکومت نے اصلاحی اقدامات بھی کئے ہیں۔ مصلوں پر بیل بوٹے اور مسجدوں میں نقش و نگار کے بارےمیں جید سعودی علماء کرام کا بھی وہی موقف ہے جس کا اظہار مذکورہ فتوے میں کیا گیا ہے۔ حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں اگر نرمی برتی جارہی ہے یا سستی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے تو اس میں علماء ہرگز قصوروار نہیں۔ اور پھر ایسے مصلوں کے حرام ہونے یا بالکل نماز نہ ہونے کا فتویٰ بھی نہیں دیا ۔ یہی کہاگیا کہ ایسے مصلوں پر نماز پڑھنا ٹھیک نہیں اور جو لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشادات معلوم ہونے کے بعد بھی اس کی پرواہ نہیں کرتے وہ گناہ گار ہوسکتے ہیں۔ نماز کے بارے میں اور بھی کئی ایسی باتیں ہیں جو آدمی کرتا ہے اور ان کے کرنے کی وجہ سے گناہ گار بھی ہوتا ہے لیکن نماز ادا ہوجاتی ہے۔ اصل مسئلہ تو یہ  ہے کہ جب حدیث میں آگیا تو اب یہ مسلمانوں کاکام ہے کہ وہ اسے عملی جامہ پہنائیں اور اگر کوئی رکاوٹ نہیں ہے تو پھر ایسے مصلے تبدیل کرلیں تا کہ شک و شبہ کی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔ اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں کو پسند نہیں کرتے اور حضرت عائشہ ؓ سے فرماتے ہیں کہ ایسی چیزوں کو میرے آگے سے ہٹا دو’ یہ مجھے نماز میں مشغول کردیتی ہیں تو پھر ہم کون ہیں کہ یہ بیل بوٹے اور ساری تصویریں سامنے دیکھنے کے باوجود ہمارے خشوع و خضوع میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نماز میں توجہ اور خشوع وخضوع ضروری ہے اور جو کام یا چیز اس میں رکاوٹ بنے اس سے پرہیز کرنا چاہے۔ اسلام تو یوں بھی سادگی پسند کرتا ہے اور مساجد تو خالص اللہ کی عبادت کےلئے بنائی جاتی ہیں۔ ان میں گرجوں اور مندروں کی طرح تصویریں لٹکانا نقش و نگار اور بیل بوٹے بنانا (خاص طور پر سامنے قبلہ کی طرف ) ہرگز مستحسن عمل نہیں۔ گزشتہ دنوں برطانیہ کے ایک شہر میں ہم نے ایک مسجد میں نماز پڑھی تو وہاں سامنے محراب ہے۔ دونوں طرف اشتہارات ’ سینریوں اور کتبوں کی اتنی بھرمار تھی جیسے یہ کوئی عجائب گھر یا نمائش گاہ ہے۔ اب یہ تو کسی کے نزدیک بھی سنت نہیں بلکہ بدعت کے زمرے میں آتی ہیں۔کل لوگ اپنے بزرگوں پیروں اور مولویوں کی تصاویر بھی مساجد میں لٹکانا شروع کردیں گے تو اس پر آپ کیا کہیں گے؟ اس لئے شریعت میں معیار قرآں و حدیث ہے۔جو چیز اس کے خلاف ہے وہ بہرحال ناجائز ہے چاہے حکمران اس پر عمل کریں اور چاہے مفتی حضرات اس کی اجازت دے دیں یا علماء اس پر خاموشی اختیار کرلیں لیکن ناجائز کام پھر بھی ناجائز ہے۔ آپ کا یہ کہنا کہ اب جاءنماز کا کیاکریں۔اگر آپ مسئلے کو درست سمجھتے ہیں تو پھر اس جاء نماز کی فکر نہ کریں۔ شک وشبہ میں پڑنے کی بجائے کسی سادہ کپڑے پر نماز پڑھ لیا کریں اور اس جاء نماز کو بھی ضائع نہ کریں۔ اس پر کوئی سادہ غلاف چڑھا کر اسے استعمال کرسکتے ہیں یا الٹی جانب سے استعمال کرلیں۔ تکلف زیب و زینت اورچمک دمک سے سادگی اور سنجیدگی بہرحال بہتر ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ صراط مستقیم ص166