کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 150
دوسروں کی عیب جوئی اور غیبت السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کسی متقی شخص یا گروہ کے عیوب سے لوگوں کو اس لئے مطلع کرنا کہ وہ ان کے عیوب کو دین کا حصہ نہ سمجھ لیں، درست ہے؟ کسی کاروباری سلسلہ، رشتہ یا کسی دوسری ضرورت ک تحت کوئی تمہارے بھائی کے عیوب کے متعلق دریافت کرے تو کیا اسے اپنے بھائی کے عیوب اس کی عدم موجودگی میں بتائے جاسکتے ہیں؟ بعض لوگ اپنے بھائی کی برائی کسی کے سامنے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم اس کی یہ برائی اس کے سامنے بھی بیان کرسکتے ہیں لہٰذا یہ غیبت نہیں، بعض کہتے ہیں کہ اگر ہم اس کے سامنے اس کے یہ عیوب بیان کریں تو وہ برا محسوس نہیں کرے گا۔ اس لئے یہ غیبت نہیں؟ مختصر اور جامع جواب دیں۔ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! اگر ان عیوب (خامیوں) کے بیان کرنے میں شرعی عذر اور ’’النصیحة ……… للمسلمین‘‘ (مسلمانوں کی خیر خواہی مقصود ہو تو جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا: «اما ابو جہم فلایضع عصاہ عن عاتقہ و اما معاویة فصعلوک لا مال لہ» ابوجہم تو اپنے کندھے سے لاٹھی نہیں اتارتا اور معاویہ سخت فقیر ہے، اس کے پاس کوئی مال نہیں ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الطلاق باب المطلقہ البائن لانفقہ لھا ح۱۴۸۰) خواہ مخواہ بغیر کسی شرعی عذر اور النصیحۃ للمسلمین کے کسی مسلمان کے بارے میں پروپیگنڈا کرنا، انتہائی مذموم، غیبت اور بہتان ہے لہٰذا یہ حرام ہے۔ غیبت اور بہتان دونوں کا تعلق کبیرہ گناہوں سے ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) ج2ص241