کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1489
کھانا پکانے کے لیے عیسائی ملازمہ رکھنا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ہفت روزہ اہلحدیث میں‘‘احکام و مسائل’’ کا کالم دل چسپی ، اشتیاق اور التزام کے ساتھ پڑھتا ہوں اوراس سے مستفید بھی ہوتا ہوں۔ اس میں دینی سوالات کے جوابات نہایت محنت ، کدوکاش اور گہری تحقیق سے لکھے جاتے ہیں ، ہمیں ان دنوں ایک مسئلہ درپیش ہے ، وہ یہ ہے میری اس وقت عمر اسی سال سے متجاوز ہے۔ میں اور اہلیہ دونوں شدید خرابی صحت میں مبتلا ہیں، ہمیں ہماری ضرورت کےمطابق کھانا تیار کرنے اور اسے پیش کرنے کےلئے کوئی مسلمان مرد یا عورت دستیاب نہیں ہوسکا۔ مجبوراً ہم نے ایک عیسائی عورت کو اس کام کےلئے ملازم رکھا ہے۔ فیملی کے کسی فرد نے اعتراض کیا ہے کہ اس کے ہاتھوں تیار کیا ہوا کھانا جائزنہیں، اس سلسلہ میں ہماری شرعی راہنمائی فرمائیں۔  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کی اہلیہ کو صحت کاملہ و عاجلہ عنایت فرمائے، یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ آپ کو ضرورت کےمطابق کھانا تیار کرنے والا کوئی مسلمان مرد یا عورت باورچی نہیں مل سکا۔ آپ نے مجبوراًکسی عیسائی عورت کی خدمات حاصل کی ہیں، ہمارے ملک میں عیسائی مرد یا عورت دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو اپنی نظافت و طہارت کا خیال نہیں رکھتے بلکہ انہیں گندگی اٹھانے اور نالیاں وغیرہ صاف کرنے کےلئے رکھا جاتا ہےاور دوسرے وہ ہیں جو عیسائی ہونے کے باوجود صفائی ، نظافت اور طہارت کا خیال رکھتے ہیں ، پہلی قسم کے عیسائی سے ہر انسان کو کراہت ہوتی ہے ،صورت مسئولہ میں یقیناًدوسری قسم سے کسی عیسائی عورت کا انتخاب کیا گیا ہوگا۔ اہل کتاب کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:‘‘اہل کتاب کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کےلئے جائز ہے۔’’ (۵/المائدہ:۴) لفظ طعام اپنے عموم کے اعتبار سے ہر قسم کے کھانے کےلئے استعمال ہوا ہے، اگرچہ اکثر مفسرین نے اس کا معنی ذبیحہ کیا ہے۔ جب ان کا کھانا استعمال کیا جاسکتا ہے اور ان کا ذبیحہ بھی کام میں لایا جاسکتا ہے تو ان کے ہاتھ کی پکی ہوئے چیز میں کھانے میں کیا امر مانع ہے۔ اگر عیسائی عورت طہارت و نظافت کا خیال رکھتی ہے تو اسے گھر میں کھانا وغیرہ تیار کرنے کےلئے  ملازم رکھنا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے موقع پر ایک یہودیہ عورت کے ہاں کھانا تناول فرمایا تھا، کھانے میں پیش کردہ بکری کے گوشت میں یہودیوں نے زیر ملادیا تھا۔ اس کی تفصیل احادیث میں موجود ہے۔ (صحیح بخاری ،المغازی:۴۲۴۹) حافظ ابن حجرؒ نے اس حدیث کے تحت لکھا ہے کہ اہل کتاب کا کھانا تناول کرنا اور ان کا ہدیہ قبول کرنا جائز ہے۔(فتح الباری،ص:۶۲۳،ج ۷) گھر کا باورچی گھر کا بھیدی ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے کرسچن عورت پر کڑی نظر رکھی جائے، اس کا عیسائی ہونا کھانا وغیرہ تیار کرنے اور اسے پیش کرنے کے لئے کوئی مانع امر نہیں ہے۔ البتہ رازداری ،دیانت اور نظافت و طہارت کے پہلو کو ضرور دیکھ لینا چاہیے،شرعی طورپر اس مشروط اجازت کے باوجود کسی مسلمان باورچی کی تلاش جاری رکھنا چاہیے۔ (واللہ اعلم ) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اصحاب الحدیث ج2ص472