کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1474
لیڈیز ٹیلرنگ کا کام کرنا
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
محمد علی خریداری نمبر 53983ہی سوال کر تے ہیں کہ ہم لیڈ یز ٹیلرنگ کا کام کرتے ہیں ہمارے ہاں مختلف قسم کی عورتیں آتی ہیں کچھ عورتیں نا پ کے لیے اپنے کپڑے لے کر آتی ہیں اور کچھ عورتیں کپڑوں کی بجا ئے اپنے جسم کا نا پ دیتی ہیں ہمیں کسی نے بتا یا ہے کہ عورت ٖغیر مر د کو جسم کا نا پ نہیں دے سکتی اور نہ ہی غیر مر د عورتوں کے کپڑے دیکھ سکتا ہے اس کا کہنا ہے کہ یہ کام حرام ہے مسئلہ کی وضاحت فر ما دیں ؟
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ!
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
لبا س انسا نی فطرت کا ایک اہم مطا لبہ ہے قرآن کر یم نے اس کی غر ض و غا یت با یں الفا ظ بیان کی ہے :' کہ تمہار ے جسم کے قا بل شر م حصے کو ڈ ھا نکتا ہے اور تمہا ر ے لیے جسم کی حفا ظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہے ۔(7/الاعراف :26)
یعنی لبا س انسا ن کی ستر پو شی جسم کی حفا ظت اور اس کے لیے با عث زینت ہے آیت کر یمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لیے لبا س اخلاقی ضرورت ستر پو شی اس کی طبعی ضرورت حفا ظت و زینت سے مقدم ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ لبا س کا بنیا د ی فا ئدہ یہ ہے کہ وہ ستر پو شی کا فا ئدہ دے اس کے بر عکس اگر لبا س اتنا با ر یک ہے کہ اس میں جسم کی جھلک نما یاں ہو یا سلا ئی اتنی چست ہے کہ جسم کے پو شیدہ حصو ں کے خدو خا ل نما یاں ہو ں اس قسم کے لبا س کو ستر پو ش نہیں کہا جا سکتا اور ایک ایما ن دار درزی کے لیے ضروری ہے کہ وہ عورتوں کے ایسے تنگ لبا س تیا ر کر نے سے پرہیز کرے جو سا تر ہو نے کے بجائے ان کی عریا نی کا با عث ہو ں اس قسم کے لبا س کی اجر ت جا ئز نہیں ہے خو اہ عورتیں خو د نا پ کا کپڑا بھیج دیں اسی طرح عورتوں کو بھی چا ہیے کہ وہ ہمیشہ سا تر لباس زیب تن کر یں انتہا ئی بر یک اور چست لبا س سے اجتناب کریں مغرب اور مغرب زدہ لوگوں کی تحریک عر یاں کو نا کا م و نا مرا د بنا نے کے لیے تمام مسلمان عورتیں اپنے سا تر لبا س اور شر عی حجا ب کی پا بندی اختیا ر کر یں اسلا می لبا س تیا ر کر نے کی اجر ت لیجا سکتی ہے لیکن عورتوں کے جسم کی خو د پیما ئش نہ لے بلکہ یہ کا م اپنی عز یز ہ بہن بیٹی وا لدہ بیو ی وغیرہ سے لیا جاسکتا ہے عورت کے جسم کو بلا و جہ ہا تھ لگا نا حرا م ہے با لخصوص جسم کے ان حصوں کو چھو ٹا جو اعضائے صنفی کہلا تے ہیں اور جن سے شہو انی جذبات ابھر نے کا اند یشہ ہے اس کام کےلیے مندرجہ ذیل باتو ں کا خیا ل رکھنا ہو گا :
(1)مردوں اور بچوں کے لبا س تیا ر کیے جا ئیں ۔
(2) عورتوں کے سا تر لبا س تیا ر کیے جا سکتے ہیں بشر طیکہ ان کی پیما ئش خو د لی جا ئے بلکہ ان کے کپڑوں کے ناپ سے کا م چلا یا جا ئے ۔
(3)بہتر ہے کہ خا تون کسی ٹیلر کی خدمت حاصل کر یں اور شر عی حدود میں رہتے ہو ئے ان سے لبا س تیا ر کرائیں ۔ مختصر یہ ہے کہ لبا س تیا ر کرتے وقت مذکو ر ہ با لا قرآنی ہدا یت کو ضرور مد نظر رکھا جا ئے کیو ں کہ لباس تو تقو ی کا ہی بہتر ہے ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث
ج1ص461