کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1454
رہن شدہ زمین سے فائدہ اٹھانا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ اگرکسی شخص نے زمین رہن رکھی۔ تو مرتہن کو اس سے نفع اٹھانا جائز ہے یا نہیں؟نیز زمین مرہونہ کاقیاس سواری اور دودھ کے جانور پر صحیح ہے یا نہیں؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! اس کا جواب بایں الفاظ دیا گیا ہے۔کہ شئ مرہون سے اس پر اٹھنے والے اخراجات کی وجہ سے مرتہن کا نفع اٹھاناجائز ہے یعنی جب سواری یا دودھ کا کوئی جانورمرہون ہو اور اس کے دانہ اورگھاس وغیرہ کا خرچہ مرتہن کے زمے ہوتو مرتہن کا نفع اٹھاناجائز ہے۔یعنی جب سواری کادودھ کا کوئی جانور مرہون ہو اوراسکے دانہ اورگھاس وغیرہ کاخرچہ مرتہن کے زمے ہو تو مرتہن کو جائز ہے کہ اپنے اخراجات کے بقدر جانور مرہون پر سواری کرے۔اوردودھ پئے اور اسے اخراجات سے زیادہ نفع اٹھانا جائز نہیں مثلاً گائے مرہون پر مرتہن روزانہ کاخرچہ دو روپیہ ہوتاہے۔اور گائے روزانہ چار  روپے کا دودھ دیتی ہو  تو اسے صرف  دو رو پے کے بقدر دودھ پیناجائز ہے۔اور باقی دوروپے کا دودھ راہن کا ہے۔ اور مرتہن کو باقی دودھ پینا جائز نہیں ہے۔ اور اگراسے پئے گا تو سود میں داخل ہوگا۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:''کہ اگر سواری کا جانوررہن ہو تو اخراجات کے معاوضہ میں اس پر سواری کی جائےگی۔اوردودھ والے جانور کا دودھ خرچہ کےمعاوضے میں پیا جائے گا۔اور جو سواری کرے گا۔اوردودھ پئے گا وہی خرچہ برداشت کرے گا۔''(صحیح بخاری) نیز بخاری میں ابراہیم نخعی سے مر وی ہے کہ گم شدہ جانور پرسواری بھی چارہ کے عوض کی جائے گی اوردودھ والے جانور کا دودھ بھی چارہ کے عوض پیاجائے گا اور رہن کا بھی یہی حکم ہے۔ فتح الباری میں اس کی مزید وضاحت ہے۔کہ اگر کوئی مرتہن کے پاس دودھ دینے والا جانور رہن رکھے تو مرتہن کوچارہ کی قیمت کے برابردودھ لیناجائزہوگا اگر زیادہ لے گاتو سود ہوگا۔ دوسری بات یہ ہےکہ سواری اوردودھ کے جانور کے علاوہ دوسری کسی مرہون چیز کا نفع اٹھانا جائز نہیں ہے۔کیونکہ اس کا ثبوت نہیں بلکہ اس کی ممانعت ہے۔حدیث میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:''گروی شدہ چیز کو راہن سے روکا نہیں جاسکتا اس کے نفع اور نقصان کامالک گروی رکھنے والاہے۔'' اسے امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی مسند اور دارقطنی نے اپنی سنن میں بیان کیاہے۔اور کہا ہے کہ اس کی سند حسن متصل ہے علامہ شوکانی  رحمۃ اللہ علیہ نیل الاوطار میں لکھتے ہیں۔کہ شئ مرہون کا نفع ونقصان راہن کاہے۔ اس میں جمہور کے مذہب کی دلیل ہے۔اما م شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  اور جمہور علماءنے کہ مرتہن گروی شدہ چیز سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ ہر قسم کانفع ونقصان گروی رکھنے والے کاہے۔ا س لئے کہ شریعت نے نفع ونقصان کا ذمہ دار گروی رکھنے والے کو ٹھرایا ہے۔جب احادیث سے یہ  دونوں باتیں ثابت نہیں تو معلوم ہوا کہ زمین مرہونہ سے مرتہن کو نفع اٹھانا جائز نہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ زمین مرہونہ کا قیاس سواری کے جانور پر صحیح نہیں ہے۔(فتاویٰ نزیریہ  ص259ج2۔واللہ اعلم بالصواب) واضح رہے کہ فتویٰ میں مذکورہ حدیث کہ گروی شدہ چیز کو راہن سے روکا نہیں جاسکتا۔ اس کے نفع ونقصان کامالک گروی رکھنے والا ہے۔اسے امام حاکم نے بیان کیا ہے۔(مستدرک حاکم :2/51) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں آخری الفاظ مدرج ہیں۔جو حضرت سعید بن مسیب  رحمۃ اللہ علیہ  نے بطور تفسیر کہے ہیں۔تاہم امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کی  تحقیق ہے۔ کہ آخر ی الفاظ بھی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہیں۔امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس حدیث کامفہوم یہ ہے کہ اگر کسی دوسرے کے پاس کوئی چیز گروی رکھی ہے۔تو اسے اس چیز سے  فائدہ لینے کا پورا پورا حق ہے۔گروی قبول کرنے والے کو ا س میں رکاوٹ نہیں بنناچاہیے۔ اگر وہ قرض دار یا قرض خواہ سے ہلاک ہوجائے تو اس سے قرض لینے والے کا حق ساقط نہیں ہوگا۔کیوں کہ یہ نقصان مقروض کا ہوا ہے۔ جس نے اپنی کوئی چیز قرض وصول کرنے والے کے پاس بطور گروی رکھی تھی لیکن بعض دوسرے فقہاء اس حدیث کا مفہوم بایں الفاظ بیان کرتے ہیں۔ کہ اگر وقت مقررہ تک مقروض اپنے زمے سے قرض نہ اتار سکے تو مرتہن کو گروی  شدہ چیز ضبط کرلینے کاحق نہیں    بلکہ اس سےقرض کی ادائیگی کے لئے  فروخت کیاجائےگا۔اگر ا س کی قیمت قرض کی رقم سے زیادہ ہے تو اس کا فائدہ گروی رکھنے والے کو ہوگایعنی زائد رقم مقروض کو واپس کردی جائےگی۔ اور اگر اس کی قیمت قرض سے کم ہے تو مقروض کے زمے ہے کہ وہ اس کی تلافی کرے۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے  کہ یہ دوسرا مفہوم ہی درست ہے کیوں کہ قرآن کریم کے مطالعہ سےمعلوم ہوتاہے کہ قرض کی ادائیگی تک گروی شدہ چیزپرقرض لینے والے کاقبضہ تسلیم کیاگیا ہے۔ اگرچہ حق ملکیت و مقروض کا ہے۔لیکن حق وثیقہ قرض لینے والے کاتسلیم شدہ ہے۔مقروض کو اپنی چیز سے انتفاع کا حق دینا اس کے قبضے کے منافی ہے۔جو قرآن کریم نے اسے دیا ہے۔پھر یہ  تفسیر ابراہیم نخعی حضرت طاؤس سفیان ثوری اور امام زہری رحمۃ اللہ علیہ  سے منقول ہے۔ حافظ عبداللہ روپڑی  رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے عدم جواز پر ایک عجیب استدلال پیش کیا ہے فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی ا للہ تعالیٰ عنہ  نے اپنی بیوی سے ایک لونڈی خریدی بیوی نے شرط لگائی کہ اگر آپ اس کسی دوسرے کو فروخت کریں تو جتنی قیمت سے فروخت کرنا طے ہوا  ہے اتنی ہی قیمت میری ہوگی۔حضرت عبد اللہ ابن مسعود  رضی ا للہ تعالیٰ عنہ  نے اس کے متعلق حضرت عمر  رضی ا للہ تعالیٰ عنہ  سے دریافت کیا تو آپ  رضی ا للہ تعالیٰ عنہ  نے  فرمایا :'' کہ ایسے حال میں آپ لونڈی کے قریب نہ جائیں جبکہ اس میں کسی کے لئے کوئی شرط موجود ہو۔'' (موطا امام مالک باب مایفعل فی الولیدۃ اذ بیعت والشرط فہیا) اس حدیث سے گروی شدہ چیز سے فائدہ اٹھانا ناجائز ثابت ہوا کیوں کہ جب بیع میں صرف ایک شرط ہونے کی صورت میں فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے۔تو گروی شدہ چیز جس مین اصل مالک کا پورا پورا حق ہوتاہے۔اس سے  فائدہ اٹھانا کہاں جائز ہوگا۔(فتاویٰ اہلحدیث :2/271) اس کے عدم جواز پر بعض ضعیف احادیث بھی بطور تایئد پیش کی جاسکتی ہیں۔چنانچہ مولانا عبد اللہ بن عبدا لجبار غزنوی اپنے فتویٰ میں لکھتے ہیں کہ: ''اللہ کے فضل سے قاعدہ کلیہ کے علاوہ خاص مسئلہ میں دواحادیث مل گئی ہیں جو اس باب میں نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حدیث اول حضرت سمرہ   رضی ا للہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے  فرمایا:''جو کوئی قرض کے بدلے اپنی زمین کو کسی کے پاس رہن رکھے تو زمین کی  پیداوار میں سے بعد وضع اخراجات جو باقی بچے وہ قرض میں محسوب کیاجائےمزدوری اور خرچ جوکچھ ہوا ہو اسے بھی انصاف کے ساتھ لگائے۔اس حدیث کو مصنف عبدالرزاق میں روایت کیا گیاہے۔ حدیث نمبر دوم طاؤس تابعی کہتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل  رضی ا للہ تعالیٰ عنہ  کی کتاب میں لکھاہوا تھا''کہ جوکوئی کسی کی زمین گروی رکھے تواس کی پیداوار قرض میں محسوب کرے اور یہ حکم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں دیا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حج فرمایاتھا۔(مصنف عبد الرزاق) یہ احادیث صورت مسئولہ کے عدم جواز پر نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن ان کی صحت کے متعلق ہمیں مکمل یقین نہیں ہے ۔ہمارے نزدیک زمین کا اصل مالک قرض لینے والا ہے۔اس لئے ا س کاحق ہے کہ وہ  اسے خودکاشت کرکے اس سے نفع حاصل کرے البتہ قرض کی واپسی یقینی بنانے کےلئے اپنی زمین سے متعلقہ کاغذات رجسٹری اوردیگر دستاویزی ثبوت وائن اپنے پا س رکھے۔اگر کسی وجہ سے ایسا ناممکن ہو تو جس کے پاس زمین گروی رکھی گئی ہے وہ خوداسے کاشت کرے اوراس پراٹھنے والے اخراجات کو منہا کرکے نفع وغیرہ کو دو حصوں میں تقسیم کرلیاجائے ایک حصہ اپنی محنت کے عوض خودرکھ لے اور دوسرا حصہ زمین کے اصل مالک کو دے دیاجائے۔یاحصہ دینے کی بجائے اس کے قرض سے اتنی رقم منہاکردے۔یا رائج الوقت اس زمین کا جتنا ٹھیکہ ہو سالانہ شرح کے حساب سے اس کے قرض سے منہا کردیاجائے اس طرح قرض کی رقم جب پوری ہوجائےگی۔تو زمین اصل مالک کو واپس کردی جائے اس سلسلے میں رائج الوقت مندرجہ زیل دوصورتیں بالکل ناجائز اورحرام ہیں۔ 1۔جس کے پاس زمین گروی رکھی جائے وہ اسے خود کاشت کرے اور اس کی پیداوار خود ہی استعمال کرتا رہے اصل مالک کو بالکل نظر انداز کردیا جائے۔ 2۔اگر وقت مقررہ پر قرض وصول نہ ہوتو گروی شدہ زمین کو بحق قرج ضبط کرلیا جائے۔ یہ دونوں صورتیں صریح ظلم اور زیادتی کا باعث ہیں۔لہذا ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔(واللہ اعلم بالصواب) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اصحاب الحدیث ج1ص256