کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1391
(497) مجہول العقیدہ اور شرک سے ناواقف شخص کا ذبیحہ
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
کیا اس شخص کا ذبیحہ کھایا جا سکتا ہے جس کا عقیدہ معلوم نہ ہو اور جو گناہوں کا ارتکاب کرتا ہو اور اسے معلوم بھی ہو کہ یہ حرام ہیں اور جس کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ قصد و ارادہ کے بغیر جن کو پکارتا ہے؟
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ!
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
اگر وہ شرک نہ کرتا ہو تو اس کا ذبیحہ حلال ہے بشرطیکہ وہ مسلمان ہو اور گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نہ اس کے بارے میں کوئی اور ایسی بات معلوم ہو جس سے کفر لازم آتا ہو تو اس کا ذبیحہ حلال ہے۔ ہاں البتہ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اس نے شرک کا ارتکاب کیا ہے مثلاً یہ کہ کسی جن کو پکارا ہے یا مردوں سے دعا اور استغاثہ کیا ہے تو یہ شرک اکبر ہے‘ اس کے مرتکب انسان کا ذبیحہ نہیں کھایا جائیگا۔ جنوں کو پکارنے کی مثال یہ ہے کہ ان سے کہے کہ یہ کام کرو یا یہ کام نہ کرو یا مجھے یہ دو یا فلاں شخص کے ساتھ یہ کرو‘ اس طرح جو شخص قبروں میں مدفون لوگوں یا فرشتوں کو پکارے‘ ان سے استغاثہ کرے یا ان کیلئے نذر مانے تو یہ سب شرک اکبر ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں شرک سے محفوظ رکھے۔
گناہوں کے ارتکاب سے ذبیحہ کھانا حرام نہیں ہوتا بشرطیکہ وہ انہیں حلال نہ سمجھے بلکہ انہیں حرام ہی سمجھے اور پھر اس نے جانورکو شرعی طریقے سے ذبح کیا ہو اور جو شخص گناہوں کو حلال سمجھے تو وہ کافر شمار ہوگا۔ مثلاً: اگر کوئی شخص زنا یا شراب یا سود یا والدین کی نارمانی یا جھوٹی گواہی وغیرہ ایسے گناہوں کو حلال سمجھے‘ جن کی حرمت پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے تو وہ کافر ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر اس کام سے بچائے جو اسے ناراض کرنے کا سبب نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج3ص457