کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1390
(496) بازاروں میں بکنے والا درآمدی گوشت
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
بازاروں میں فروخت ہونے والے اس گوشت کے متعلق کیا حکم ہے جو باہر سے درآمد کیا ہوتا ہے؟ کیا اسے کھانا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ!
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
اگر جانوروں یا پرندوں کو ذبح کرنے والا شخص غیر کتابی ہو جس طرح کہ روس اور بلغاریہ یا ان کی طرح الحاد اور ترک ادیان میں مشابہت رکھنے والے کفار ہیں تو ان کا ذبیحہ کھانا حلال نہیں ہے‘ خواہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو یا نہ لیا گیا ہو کیونکہ اصل میں تو صرف مسلمانوں ہی کے ذبیحے حلال ہیں۔ ہاں البتہ قرآنی نص نے اہل کتاب کے ذبیحوں کو بھی مستثنیٰ قرار دے دیا ہے لہٰذا اگر کوئی یہودی یا عیسائی کسی زندہ جانور کو گردن سے ذبح کرے یا اونٹ کو ‘ (سینے کے گڑھے میں زخم لگا کر) نحر کرے اور بوقت ذبح اللہ تعالیٰ کا نام بھی لے تو اسے کھانا بالاتفاق جائز ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَطَعامُ الَّذینَ أوتُوا الکِتـٰبَ حِلٌّ لَکُم...﴿٥﴾... سورةالمائدة
’’اور اہل کتاب کا کھانا بھی تمہارے لیے حلال ہے‘‘۔
اور اگر وہ عمداً اللہ تعالیٰ کا نام نہ لے اور نہ کسی اور کا نام لے تو اس کے جواز کے بارے میں اختلاف ہے‘ اگر وہ غیر اللہ کا نام لے تو اسے کھانا جائز نہیں کیونکہ اس صورت میں یہ مردار ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلا تَأکُلوا مِمّا لَم یُذکَرِ اسمُ اللَّہِ عَلَیہِ وَإِنَّہُ لَفِسقٌ...﴿١٢١﴾... سورة الانعام
’’اور جس چیز پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے مت کھائو کہ اس کا کھانا گناہ ہے‘‘۔
اور اگر وہ اس کے سر پر ہتھوڑا مارے یا اسے بجلی کا کرنٹ لگائے جس سے وہ مر جائے تو یہ جانور ’’موقوذہ‘‘ شمار ہوگا‘ خواہ بعد میں اس کی گردن کاٹ بھی لے اور اللہ تعالیٰ نے ’’موقوذہ‘‘ کو حرام قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے:
﴿حُرِّمَت عَلَیکُمُ المَیتَةُ وَالدَّمُ وَلَحمُ الخِنزیرِ وَما أُہِلَّ لِغَیرِ اللَّہِ بِہِ وَالمُنخَنِقَةُ وَالمَوقوذَةُ...﴿٣﴾... سورةالمائدة
’’تم پر طبعی موت مرا ہوا جانور اور (بہتا ہوا) لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے… یہ سب حرام ہیں‘‘۔
ہاں البتہ سر پر چوٹ لگنے کے بعد اگر جانور ابھی تک زندہ ہو اور اسے باقاعدہ ذبح کر لیا جائے تو پھر اسے کھانا حلال ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخر میں فرمایا ہے:
﴿ وَالمَوقوذَةُ وَالمُتَرَدِّیَةُ وَالنَّطیحَةُ وَما أَکَلَ السَّبُعُ إِلّا ما ذَکَّیتُم...﴿٣﴾... سورةالمائدة
’’اور جو جانور چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کر مرجائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جسے درندے پھاڑ کر کھائیں مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کر لو‘‘۔
محرمات میں سے اللہ تعالیٰ نے اس جانور کو مستثنیٰ قرار دے دیا ہے جو ابھی تک زندہ ہو اور اسے ذبح کر لیا گیا ہو کیونکہ ذبح کیا ہوا جانور مردہ نہیں ہوتا۔
جس جانور کا گلا گھونٹ دیا گیا اور وہ مر گیا یا اسے بجلی کا کرنٹ دیا گیا اور وہ مر گیا تواسے کھانا بالاتفاق حلال نہیں ہے خواہ گلا گھوٹنے یا بجلی کا کرنٹ لگانے یا اسے کھانے کے وقت بسم اللہ ہی کیوں نہ پڑھ لی جائے۔ یاد رہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ تم:
﴿سموا علیہ وأنتم وکلوہ» ( صحیح بخاری)
’’اللہ کا نام لو اور کھا لو‘‘۔
ان لوگوں کے ذبیحوں کے بارے میں تھا جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور معلوم نہ تھا کہ انہوں نے اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں‘ لہٰذا اللہ کا نام لینے کے سلسلہ میں شک کرنے والے مسلمانوں کو آپ نے یہ حکم دے دیا کہ وہ کھاتے وقت بسم اللہ پڑھ لیں اور ان ذبح کرنے والوں کے معاملہ کو اسی پر محمول کریں جو مسلمانوں میں مروج ہے کہ وہ بوقت ذبح اللہ کا نام لیتے ہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج3ص456