کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1351
مال حرام سے قرض لینا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کیا کسی ایسے شخص سے قرض لینا جائز ہے، جس کا کاروبار حرام ہو اور وہ حرام لین دین کرتا ہو؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! میرے بھائی! اس طرح کے آدمی سے نہ قرض لینا چاہیے اور نہ کوئی اور معاملہ کرنا چاہیے۔ جب تک اس کے معاملات حرام ہوں، وہ سودی کاروبار کرتا ہو یا کوئی اور حرام معاملہ کرتا ہو تو اس سے لین دین نہ کریں اور نہ اس سے قرض لیں بلکہ واجب ہے کہ ایسے شخص سے دور ہو جائیں، اور اگر وہ حرام اور غیر حرام معاملہ کرتا ہو یعنی اس کے کاروبار میں پاک اور ناپاک کی آمیزش ہو تو پھر اس سے معاملہ کرنے میں اگرچہ کوئی حرج نہیں لیکن افضل یہ ہے کہ اس صورت میں بھی احتیاط کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (دع ما یریبک الی مالا یریبک) (جامع الترمذی‘ صفة القیامة‘ باب : 60‘‘ ح: 2518وسنن النسائی‘ ح: 5714) "اس کو چھوڑ دو جس میں شک ہو اور اس کو لے لو جس میں شک نہ ہو۔" نیز آپ نے فرمایا ہے: (من اتقی الشہبات استبرا لدینہ وعرضہ ) (صحیح البخاری‘ الایمان‘ باب فضل من استبرا لدینہ‘ ح: 52 وصحیح مسلم‘ المساقاة‘ باب اخذ الحلال وترک الشہبات‘ ح: 1599 واللفظ لہ) "جو شخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا۔" نیز آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: (الاثم ما حاک فی نفسک وکرہت ان یطلع علیہ الناس) (صحیح مسلم‘ البر والصلة‘ باب تفسیر البر والاثم‘ ح: 2553) "گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تم اس بات کو ناپسند کرو کہ لوگوں کو اس کی اطلاع ہو۔" مومن تو مشتبہات سے بھی اجتناب کرتا ہے۔ لہذا جب آپ کو معلوم ہو کہ اس کے معاملات حرام ہیں یا یہ حرام کاروبار کرتا ہے تو ایسے شخص سے نہ کوئی معاملہ کریں اور نہ اس سے قرض لیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج2 ص539