کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1348
جو شخص جہالت کی وجہ سے سود لے لے
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
جب میرے پاس کچھ مال ہو، میں اسے بینک میں رکھ دوں اور اس پر ایک سال یا زیادہ مدت گزر جائے اور مجھے اپنی اصلی رقم سے دس فی صد زیادہ ملے اور مجھے علم نہ ہو کہ یہ سود یا غیر شرعی معاملہ ہے اور میں اس زیادہ رقم کو تو لے لوں اور اصل رقم کو بینک ہی میں رہنے دوں تو کیا یہ ممکن ہے کہ اس رقم کے بقدر میں اپنے کسی دوسرے حلال مال سے نکال دوں؟ کیا یہ جائز ہے کہ یہ سودی رقم میں اپنی ان ضرورت مند اور شادی شدہ چچا زاد بہنوں کو دے دوں جو ہم سے دور کسی اور علاقہ میں رہتی ہیں؟
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ!
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
نفع کے نام سے بینک نے آپ کو جو سود دیا ہے، اسے کھانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے آگے توبہ کریں، اس کے بقدر اپنے حلال مال سے نکالنا واجب نہیں ہے بلکہ یہ قابل معافی ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَمَن جاءَہُ مَوعِظَةٌ مِن رَبِّہِ فَانتَہیٰ فَلَہُ ما سَلَفَ وَأَمرُہُ إِلَی اللَّہِ...٢٧٥﴾... سورة البقرة
"تو جس شخص کے پاس اللہ کی نصیحت پہنچی اور وہ (سود لینے سے) باز آ گیا تو جو پہلے ہو چکا وہ اس کا، اور (قیامت میں) اس کا معاملہ اللہ کے سپرد۔"
اگر اس کے بعد بھی آپ بینک سے سود لیں تو اسے کسی قریب یا بعید کے ایسے انسان پر صدقہ کر دیں جو صدقہ کا مستحق ہو تو اس سے آپ سود کھانے کے گناہ سے بچ جائیں گے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج2 ص527