کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 131
حلف کی بنیاد پر مشتبہ آدمی پر چوری کا الزام لگانا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ایک شخص کی کچھ رقم چوری ہوگئی، اسے دو آدمیوں پر شبہ تھا جو اس کے پاس آنے جانے والے تھے،اتفاق سے ایک تیسرے آدمی نے حلفیہ بیان دیا کہ جن پر چوری کا شبہ تھا انہوں نے میرے سامنے چوری کا اقرار کیا ہے۔ لیکن جب معاملہ کی چھان بین کی گئی تو انہوں نے صاف انکار کردیا کہ ہم نے کسی کےپاس کوئی اقرار نہیں کیا ہے ۔ کیا اس تیسرے آدمی کے بیان حلفی کو بنیاد بناکر مشتبہ آدمیوں پر چوری ڈالی جاسکتی ہے؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! چوری کا جرم ثابت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ملز م اقرار جرم کرے یا دوعادل گواہ ملزم کے ارتکاب جرم کی عینی شہادت دیں۔صورت مسئولہ میں دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی نہیں ہے،زیادہ سے زیادہ اقرار کی دھندلی سی ایک شہادت ہے اور وہ بھی انکار بعد از اقرار کی صورت اختیار کرچکی ہے ۔ اتنی سی بات سے چوری ثابت نہیں ہوتی ۔اگر ایک گواہ کی بھی عدالت ثابت ہوجائے جو چوری کی گواہی کے لئے ضروری ہوتی ہے تو مدعی کی قسم سےفیصلہ ہوسکتا تھا۔ لیکن یہاں یہ صورت بھی نہیں،کیونکہ مدعی کس بات کی قسم اٹھائے اور اگر مدعی قسم اٹھانے پر آمادہ بھی ہوجائے تو اس کی کیا بنیاد ہے؟اگر گواہ کی عدالت بھی مشتبہ ہواور مدعی کا قسم اٹھانا بھی بے بنیاد  ہوتو اتنی سی بات سےجرم ثابت نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کسی تیسرے آدمی کے بیان حلفی کو بنیاد بنا کر مشتبہ آدمیوں پر چوری ڈال جاسکتی ہےبلکہ صورت مسئولہ میں مدعیان علیہما سے قسم لے کرانہیں بے قصور قرار دینا ہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اصحاب الحدیث ج2ص469