کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 128
بزرگ حضرات کا بچیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار دینا شرعاً کیسا ہے؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ہمارے معاشرے میں بزرگ حضرات چھوٹی بچیوں کے سرپر پیار دیتے ہیں ، اس پر کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ شرعاًایسا کرنا جائزنہیں ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! محبت بھرے جذبات سے خیرو برکت کی دعائیں دیتے ہوئے بزرگوں کابچوں کا بچیوں  کے سر پر ہاتھ پھیرنے کو ہمارے معاشرہ میں ‘‘پیار ’’کہا جاتا ہے۔ دین اسلام نے اسے مشروع قرار دیا ہے،چنانچہ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میری خالہ نے  مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لےگئیں، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرا یہ بھانجا بیمار ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیر ااور میرے لئے خیروبرکت کی دعا فرمائی۔ (صحیح بخاری ،المرضیٰ:۵۶۷۰) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے کہ ‘‘ بچوں کے لئے خیروبرکت کی دعا کرتے ہوئے ان کے سر پر ہاتھ پھیرنا۔’’ (صحیح بخاری ،الدعوات،باب نمبر:۳۱) ولید بن عقبہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمکہ تشریف لائے تو اہل مکہ اپنے بچوں کو آپ کی خدمت میں پیش کرتے، آپ ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے اور ان کے لئے دعا خیرکرتے۔ (مسندا مام احمد،ص:۳۲،ج ۴) حضرت جریج رحمۃ اللہ علیہ پر جب تہمت زنا لگی تو اس واقعہ میں نومولود کے سر پر ہاتھ پھیرنے کا ذکر ملتا ہے۔ (مسند امام احمد،ص:۴۳۴،ج ۲) اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی امتوں میں بھی یہ فطرتی رسم قائم تھی ، جسے اسلام نے بھی برقرار رکھا ہے بلکہ یتیم بچے کے سر پر ہاتھ پھیرنے کو بہت اہمیت دی ہے ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ‘‘جس نے یتیم بچے یا بچی کے سر پر ہاتھ پھیرا، اس سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی مقصود تھی تو ہاتھ کے نیچے آنے والے ہر بال کے عوض اسے نیکیاں دی جائیں گی۔’’(مسند امام احمد،ص:۲۵۰،ج ۵) ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی سنگدلی کا شکوہ کیا تو آپ نے بطور علاج یہ نسخہ تجوید کیا کہ ‘‘ یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر اور مسکین کو اپنے ساتھ کھانےمیں شریک کیا کر اس سے تیرا دل نرم ہوجائے گا۔’’ (مسند امام احمد،ص:۲۶۳،ج ۲) زیر بحث مسئلہ کی متعدد صورتیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭بزرگ مرد محرم ہوتو اس کا اپنے سے چھوٹوں کو پیاردینا، خواہ وہ بالغ ہی کیوں نہ ہوں۔ ٭بزرگ عورت محرمات سے ہے ، اس کا اپنے سے عمر میں چھوٹوں کو پیار دینا، خواہ وہ حد بلوغ کو پہنچ چکے ہوں۔ ٭بزرگ مرد غیر محرم یا عورت غیر محرمہ کا نابالغ بچوں اور بچیوں کو پیار دینا، اس کے جواز میں دو آراء نہیں ہوسکتیں ، البتہ درج ذیل صورتوں میں اختلاف ہے۔ ٭بزرگ مرد غیر محرم ہو وہ اپنی رشتہ دار بالغ بچیوں کے سر پر  ہاتھ پھیرے ۔ ٭بزرگ عورت غیر محرمات سے ہو وہ اپنے رشتہ دار بالغ بچوں کو پیا ردے۔ ان آخری دونوں صورتوں کےمتعلق مختلف علما سے رابطہ کرنے کے بعد دو موقف سامنے آئے ہیں: (۱)ایسا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ شریعت میں اس کا ثبوت نہیں ۔ (۲)ایسا کرنا جائز ہے کیونکہ شریعت نے اس سےمنع نہیں کیا۔ فریقین کے دلائل پیش کرنے کے بعد آخر میں ہم اپنا موقف بیان کریں گے۔ جو حضرات اسے ناجائز قراردیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے بہترین نمونہ ہیں۔ آپ نے کبھی کسی بالغ بچی کے سر پر ہاتھ نہیں پھیرا حالانکہ آپ تمام لوگوں میں زیادہ پرہیزگار اور اللہ سے ڈرنے والے تھے۔نیز وہ امت کے لئے روحانی باپ کی حیثیت رکھتے ہیں۔بلکہ بعض مواقع پر آپ نے ایسے ارشادات فرمائےہیں جن کے عموم سے پتہ چلتا ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے، مثلاً: (الف)عورتوں سے بیعت لیتے وقت بعض خواتین کی طرف سے خواہش کا اظہار ہوا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ ہم سےمصافحہ کیوں نہیں کرتےتو آپ نے فرمایا:‘‘میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔’’ (مسند امام احمد،ص:۳۵۷،ج ۶) جب بیعت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ سے نہیں لگا تو عام آدمی کے لئے عورتوں کے سر پر ہاتھ پھیرنا کیونکر جائز ہوسکتا ہے جبکہ یہ آدمی اس کے لئے اجنبی کی حیثیت رکھتا ہے۔ (ب)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا ہے کہ اللہ کی قسم!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو چھوا تک نہیں ۔(صحیح بخاری ،الشروط:۲۷۱۳) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیر البشر ہیں قیامت کے دن اولاد آدم کے سردار ہوں گے ان کے مبارک ہاتھوں نے کسی عورت کے ہاتھ کو چھوا تک نہیں تو دوسرے غیر مردوں کےلئے کس طرح اجنبی عورتوں کے سر پر ہاتھ پھیرنا جائز ہوسکتا ہے۔ (ج)جو عورت مرد کےلئے حلال نہیں ہے اسے ہاتھ لگانا بہت سنگین جرم ہے،جیسا کہ حدیث میں ہے کہ حضرت معقل بن یساررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘اگر آدمی کے سر میں نوک دار لوہے سے سوراخ کردیا جائے تو یہ اس بات سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت کو ہاتھ لگائے جو اس کےلئے حلال نہیں ہے۔’’ (ترغیب و ترہیب،ص:۳۹،ج ۳) امام منذری رحمہ اللہ نے اس روایت کو بیہقی اور طبرانی کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ طبرانی کے راویوں کو صحیح کےراوی قرار دیا ہے۔ اسی طرح علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو امام رویانی کے حوالہ سے بیان کیا ہےاور اس پر صحیح ہونے کا حکم لگایا ہے۔(الاحادیث الصحیحہ:۲۲۶) اس حدیث کی رو سے بھی اجنبی عورت کو ہاتھ لگانے کی حرمت ثابت ہوتی ہے، البتہ کسی ناگہانی ضرورت کے پیش نظر عورت کو ہاتھ لگانے میں چنداں حرج نہیں ،مثلاً بیماری کی حالت میں ڈاکٹر یا طبیب کانبض دیکھنا یا مکان میں آگ لگنے کی صورت میں اسے پکڑ کر مکان سے باہر نکالنا ، لیکن پیاردیتے وقت اس کے سر پر ہاتھ لگانا کوئی حقیقی ضرورت نہیں  ۔ جو حضرات بزرگوں کے لئے اجنبی عورت کو پیار دینے کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں ان کے پاس کوئی نقلی دلیل نہیں ہے، البتہ وہ عقلی اعتبار سے کہتے ہیں کہ یہ ایک معاشرتی  مسئلہ ہے جو معاشرہ کے رسم و رواج سے تعلق رکھتا ہے۔چونکہ شریعت نے اس سےمنع نہیں کیا ، اس لئے ایسا کرنا جائز ہے، پھر ایسا کرنے سے تبلیغ وغیرہ کا بھی موقع ملتا ہے کہ اگر وہ ننگے سرہوتو سمجھایا جاسکتا ہے۔ شریعت نے معاشرہ میں رائج ‘‘ معروف’’کو بہت حیثیت دی ہے، اس لئے اسے جائز ہونا چاہیے، پھر ایسے موقع پر کسی قسم کے منفی جذبات ابھرنے کا موقع بھی نہیں ہوتا۔ جن کے پیش نظر اسے ممنوع قراردیاجاسکے، اگر اندیشہ ہوتو اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مؤخر الذکر حدیث کا تعلق ایسے حالات سے ہے جب ہاتھ لگانے والا دل کا کوڑھ اور نیت میں فتور رکھتا ہو۔ ہم نے انتہائی دیانتداری کے ساتھ فریقین یعنی مانعین اور مجوزین کے دلائل قارئین کے سامنے رکھ دیئے ہیں، ہمارا رحجان یہ ہے کہ تقویٰ اور پرہیز گاری کے پیش نظر اس سے اجتناب کیا جائے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے عمر رسیدہ عورت کو پردہ کے سلسلہ میں کچھ نرمی دی ہے اس کے باوجود فرمایا ہے کہ ‘‘اگر وہ اس نرمی کو استعمال کرنے سے پرہیز کرے تو یہی بات ان کے حق میں بہتر ہے۔’’ (۲۴/النور:۶۰) البتہ مجوزین حضرات کےموقف کو بالکل نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس کےپیش نظر اگر کوئی برخوردار عمر رسیدہ عورت کےسامنے سر جھکادے یا کوئی برخورداری اپنے کسی بزرگ کےسامنے پیار لینے کے لئے اپنا سر آگے کو کردے تو ان کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہیے، البتہ مسئلہ کی صحیح صورت حال سے انہیں ضرور آگاہ کردیا جائے۔ہمارے بعض خاندانوں میں ایسے موقع پر گلے ملنے کا رواج ہے لیکن اس کی کسی صورت میں اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح سر پر ہاتھ پھیرتے وقت اگر کسی قسم کی شہوانی تحریک پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو بھی اس سےاجتناب کرناچاہیے۔ (واللہ اعلم ) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اصحاب الحدیث ج2ص419