کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1242
(612) مویشی جب کھیتوں میں داخل ہو کر انہیں خراب کردیں
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث جو اونٹوں اور کھیتوں کے مالکان میں فیصلہ کے بارے میں ہے ، بکریوں ، گایوں ارو ان تمام مویشیوں کو شامل ہے ، جن کی کسی ایسے چواہے کے ذریعہ حفاظت کی جانی چاہیے ، جو انہیں کھیتوں میں داخل ہونے سے اور درندوں کے چیر چھاڑ کھانے سےبچجائے یا یہ حدیث صرف انٹوں ہی کے ساتھ خاص ہے ، جو دن کو کم چرتے ہیں اور رات کو ان کی حفاظت کی جاتی ہے ؟
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ!
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
اولا ً: اس موضوع سےمتعلق جو حدیث وارد ہے ، اسے امام امحمد نے ’’مسند ‘‘ میں اور امام ابو داؤد ، نسائی اورابن ماجہ نے اپنے اپنے ’’سنن‘‘ میں نیز کئی دیگر محدثین نے بھی روایت کیا ہے ، الفاظ قریبا ایک جیسے ہیں ۔ ابو داؤد کی روایت میں یہ ہے کہ حرام بن محیصہ ہےبراء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ
کَانَتْ لَہُ نَاقَةٌ ضَارِیَةٌ فَدَخَلَتْ حَائِطًا فَأَفْسَدَتْ فِیہِ، فَکُلِّمَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہَا: «فَقَضَی أَنَّ حِفْظَ الْحَوَائِطِ بِالنَّہَارِ عَلَی أَہْلِہَا، وَأَنَّ حِفْظَ الْمَاشِیَةِ بِاللَّیْلِ عَلَی أَہْلِہَا، وَأَنَّ عَلَی أَہْلِ الْمَاشِیَةِ مَا أَصَابَتْ مَاشِیَتُہُمْ بِاللَّیْلِ»سنن ابی داؤد ، البیوع ، باب المواشی تفسد زرع قوم ، ح : 3570 وسنن ابن ماجہ ، ح : 2332 والنسائی فی الکبری ، ح 5784 ومسند احمد : 5؍436)
’’اس کی ایک نقصان پہنچانے والی اونٹنی تھی ، جس نے ایک باغ میں داخل ہو کر اسے نقصان پہنچایا تو انہوں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا تو آپ نے فیصلہ یہ فرمایا کہ باغوں کی دن کے وقت حفاظت ان کے مالکان کی ذمہ داری ہے اور جانوروں کی رات کے وقت حفاظت ان کے مالکان کی ذمہ داری ہے ۔ جانور رات کے وقت جو نقصان پہنچائیں تو اس کی ذمہ داری ان کے مالکان پر ہے ۔‘‘
امام ابو داؤد نے ایک دوسری سند کے ساتھ یہ بھی روایت کیاہے ، جسے حرام بن محیصہ نے اپنے باپ سے روایت کیاہے :
أَنَّ نَاقَةً لِلْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ دَخَلَتْ حَائِطَ رَجُلٍ فَأَفْسَدَتْہُ عَلَیْہِمْ، «فَقَضَی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی أَہْلِ الْأَمْوَالِ حِفْظَہَا بِالنَّہَارِ، وَعَلَی أَہْلِ الْمَوَاشِی حِفْظَہَا بِاللَّیْلِ» (سنن ابی داود ، البیوع ، باب المواشی تفسد زرع قوم ، ح : 3569 والنسائی فی الکبری ، ح : 5783 ومسندہ احمد : 5؍436)
’’براء کی اونٹنی نے ایک شخص کے بارے میں داخل ہوکر اسے نقصان پہنچایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ یہ فرمایا کہ دن کے وقت اپنےاموالکی حفاظت اہل اموال کی ذمہ داری ہے ، جب کہ مویشیوں کے مالکان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ رات کے وقت ان کی حفاظت کریں ( تاکہ کسی کو نقصان نہ پہنچا سیکیں ۔‘‘
ثانیاً: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ایک خاص سبب کے بارے میں وارد ہوئی ہے اور وہ سبب ہے براء کی اونٹنی کا کسی دوسرے شخص کھیتی کو خراب کردینا ،لیکن اس کے لیے آپ نے جو الفاظ استعمال فرمائے ہیں ، وہ عام ہیں اور وہ یہ کہ آپ نے فرمایا کہ رات کے وقت جانوروں کی خفاظت ان کے مالکان کی ذمہ داری ہے ۔ اور جانور جو نقصان پہنچائیں گے اس کا تاوان ان کے مالکان پر ہوگا ، تو اعتبار حدیث کے عام الفاظ ہی کا ہوگا ، خاص سبب کا نہیں ۔ ماشیہ (مویشی ) کا لفظ عام ہے ، جو بکریوں اور گایوں پر بھی مشتمل ہے ۔
ثالثاً: بہت سے علماء نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور اس کے مطابق عمل کیا ہے ۔ مثلاً امام مالک ، شافعی ، احمد اور کئی دیگر آئمہ نے یہی فرمایا ہے کہ جانور کے مالک پر اس نقصان کا تاوان ہوگا جو اس کا جانور رات کے وقت پہنچائے اور وہ جو نقصان دن کے وقت پہنچائے اس کا وہ ذمہ دار نہیں ہوگا ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارا عمل اسی حدیث کے مطابق ہے کیونکہ یہ ثابت ہے ،متصل ہے اور اس کی سند کے تمام رجال بھی معروف ہیں اور انہوں نے اس حدیث کو دوسری حدیث ((العجماء جبار )) (صحیح البخاری ، الزکاۃ ، باب فی الرکاز الخمس ، حدیث 1499 وصحیح مسلم ، الحدود ، باب جرح العجماء والمعدن ، حدیث 1710 )’’جانوروں کا نقصان رائیگاں جاتا ہے ‘‘ کے عموم کا مخصص قرار دیا ہے ۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ مویشیوں کے مالکان کو مطلقا تاوان ادا کرتا ہوگا خواہ وہ دن کو نقصان پہنچائیں یا رات کو اور بعض نے کہا ہے کہ جانوروں کے نقصان سے مطلقا تاوان نہیں ہے لیکن ان میں سے پہلا قول ہی مختار ہے کیونکہ اس طرح عام و خاص دونوں حدیثوں میں تطبیق ہو جاتی ہے ۔ جو شخص اس سلسلہ میں مزید علم چاہیے ، اسے کتب کے متعلقہ مقامات پر علماء کے اقوال و دلائل کی طرف رجوع کرنا چاہیے او رجسے اس طرح کا واقعی کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اسے قاضی کی خدمت میں پیش کرنا چاہیے ۔ قاضی معتبر علماء کے اقوال کی روشنی میں جو فیصلہ کرے تو اس کا حکم نافذ ہو گا اور اس سے اختلاف ختم ہوجائے گا ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ
ج4ص466