کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1201
مستورات کو ٹاگیز سینما وغیرہ دکھلانا جائز ہے یا نہیں؟
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
مستورات کو ٹاکیز سینما وغیرہ دکھلانا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
مستورات کو ایسی مجالس میں لے جانا ، ان کو ذہنیت پر برا اثر ڈالتا ہے ،
(۱۰ربیع الاول ۱۳۵۱ء)
نوٹ
سینما بائیسکوپ فلم آج کل برے وسیع پیمانے پر بطور تجارت و روزگار کے اپنایا جارہا ہے جس میں بے شمار منکرات ہیں ان کی تفصیل کے لئے مندرجہ ذیل تشریح ملا خطہ کیجیئے ،
تشریح
(ازقلم حضرت العلام مولانا ابوالفضل عبدالحنان صاحب دہلوی)
مغربی دنیا فخر کرتی ہے اور اسے ناز ہے کہ وہ اپنے علوم و فنون اور ایجادات سے تمام بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچا رہی ہے لیکن اہل مغرب نے کبھی اس پر غور کیا ہے کہ ان کے علوم و فنون سے دنیا کو نقصان کس قدر پہنچ رہے ہیں ۔
یورپ کے علوم و فنون اور اس کی ایجادات واختر اعات کی منفعت بخشی کے ہم معترف اور قائل ہیں اس نے بری و بحری و شوار گذار راستول کو آسان سے آسان تر کر دیا انسان آسمان پر اڑنےلگا زمین کی طویل مسافتیں چند دنوں اور گھنٹوں میں طے کی جانے لگیں چند منٹوں بلکہ لمحوں میں دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک دم بدم کی خبریں اور تقریریں سن سکتا ہے یہ سب کچھ صحیح اور بجا مگر ان علوم و فنون کی ایجاد و اختر اع کی روز افتروں ترقی ہی نے یورپ کی جوع الارضی کو اس قدر تیز کر دیا ہے کہ اسے کسی طرح قناعت نہیں ہوتی اہل یورپ نے تقریباًتمام مشرقی قوموں کا اپنا غلام اور محکوم بنا لیا ہے اور اگر کوئی قوم خوش نصیبی سے اب تک ان کی گرفت سےبچی ہوئی ہے تو نہیں کہا جا سکتا ، کہ ان کی آزادی بھی کب تک بر قرار رہے ،
بہاورحبشیوں کی درد ناک تباہی کا جگر پا ش منظر بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ، حبشیوں کو اطالیوں کی تہذیب و شائستگی اور ان کی شجاعت و مروانگی نے نہیں بلکہ تباہ کن ایجادات د اختراعات نے غارت کیا جنگیں پہلے بھی ہؤا کرتی تھیں لیکن پہلے نہ اس درجہ ہوس ملک گیری تھی نہ ایسے تبا ہ کن حالات کے کہ آنا فاناً میں ساری دنیا میں امن وامان درہم وبرہم ہو جائے یہ سب یورپ کے علوم وفنون اور اس کی ایجاد و اختراع سے صرف امن وامان ہی کو نقصان نہیں پہنچ رہا ہے بلکہ مذہب و اخلاق اور تہذیب و شرافت کی وہ تباہی ہو رہی ہے کہ الامان والحفیظ۔
سینمار یورپ کی ایک عالم فریب مخرب اخلاق ایجاد ہے پہلے تو تصویریں جانداروں کی طرح صرف نقل وحرکت ہی کرتی تھیں لیکن سنا ہے کہ اب وہ باتیں کرنے اور گانے بھی لگی ہیں اس سے اس کی دلآویزی میں بیش از بیش اضافہ ہو گیا ہے یہ ایجاد بھی اپنے اندر بہت سی تباہیوں اور برباد یوں کا سامان رکھتی ہے جہاں یورپ اور امریکہ سے بہت سی دبائیں ہندوستان میں آئیں سینمابھی آیا یورپ اور امریکہ کی خوش حالی ، دولت مندی فارغ البالی کی انتہا نہیں ہے وہاں مال و دولت کی بارش ہو تی ہے اس کے برعکس ہندوستان مفلس و قلاش ہے نوے فی صد آدمیوں کو بھی دونوں وقت پیٹ پھر کر روٹی نہیں ملتی لیکن سینمار کی دل چسپیوں کا یہ حال ہے کہ دن بھر مزدوری کرکے تین چار آنے پیسے کمانے والا بھی سینما دیکھے بغیر نہیں رہتا خوا ہ اس کے اہل و اعیال رات کو بھوکے س جا یا کرتے ہوں ، سینما نے جہاں ہندوستان کو مالی تباہی و بربادی کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے وہاں ہندوستانی شرافت و تہذیب جنازہ بھی نکال دیا ہے بد اخلاقی وبے حیائی عام کر دی ہے اب سینما کی تباہ کاریاو برق پاشیاں مردوں سے گذر کر عورتوں تک پہنچ چکی ہیں ہزاروں شریف گھرانوں کی بہو ، بیٹیاں سینما میں جاتی ہیں اور نہایت دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے سینما کے حیا سوزاور محزب اخلاق مناظر دیکھتی ہیں اور صدنفرین و لعنت ہے ان کے شوہروں پر کہ وہ انہیں روکتے تو کیا بلکہ خود لے جاتے ، اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔
سینما کی ترویج سے پہلے عصمت فروش و آبرو باختہ عورتوں کی مجلس میں کوئی وقعت و حیثیت نہ تھی لیکن سینما کی برکتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے آبرو باختہ عورتوں کو ایک خاص پوزیشن دے دی ہے اب لوگ علانیہ رنڈیوں کی شان میں قصیدے لکھ رہے ہیں اور مدیران اخباران کی تصویریں اپنے پر چوں میں شائع کر رہے ہیں ان تصویروں کے نیچے جہاں آراء بیگم ، زبیدہ بانو ، مختاربیگم اور اسی طرح کے دوسرے معزز نام درج ہو تے ہیں جن گھروں میں ان ذلیل فاحشہ عورتوں کا نام لینا بھی گناہ اورموجب شرم سمجھا جاتاتھا اب ان گھروں میں ان کی تصویریں آویزاں ہیں اور جن مجلسوں میں ان کا تذکرہ مکروہ خیال کیا جاتا تھا ان ہی مجلسوں میں اب فخریہ ان کے تذکرے کئے جاتے ہیں ان سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سینما نے ہمارے ملک کی اخلاقی حالت کو کس طرح تباہ و برباد کردیا ہے سینما سے ملک کے نوجوان جس طرح برباد ہو رہے ہیں وہ ایک نا قابل برداشت مصیبت ہے وہ سینما میں ایکٹر سوں کو دیکھتے ہیں اور اپنی زندگی کو بھی انہی کی زندگی کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے بے اختیار ہو جاتے ہیں پھر ان کو اس کا خیال مطلق نہیں رہتا کہ ان کا گھر برباد ہو گا تجارت ملیا میٹ ہوگی تعلیم ادھوری رہ جائے گی اور وہ سب سے بے پرواہ رہ کر نگار خانوں کا طواف شروع کر دیتے ہیں ملک کے دور دراز مقامات کے نوجوان کلکۃ اور بمبئی کا سفرکرتے ہیں اور ایکٹر بننے کے لئے طرح طرح کے نقصانات اور مصائب والآم میں مبتلاہو جاتے ہیں ان تمام والہانہ ایثار و قربانی سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ انہیں خو بروا ور خوش ادا عورتوں کے ساتھ کام کرنے اور رہنے کا موقع مل جائے ، یہ تو ہمارے ملک کے نوجوانوں کا حال ہے لیکن ملک کی عورتوں میں بھی یہ جذبہ تیزی سے پیدا ہو رہا ہے چنانچہ وہ بھی اسٹیج ہو آنے اور اپنے حسن و شباب اور ناز و ادا کی نمائش کرنے کے لئے بے تاب و بیقرارہو رہی ہیں ان حالات میں ہندوستان کی شرافت کا خدا ہی حافظ ہے اخلاق و کردار اور عزت و شرافت کی بربادی کے ساتھ غریب ہندوستانیوں کی محنت و مزدوری کے پیسے جس بے دردی سے منائع ہو رہے ہیں اس کے اندازے لے لئے فلم ایکٹر وں اور ایکٹریسوں کی تنخواہوں پر نظر ڈالنے کسی کی چار ہزار روپے ماہوار کسی کی تین ہزار روپے ماہوار کسی کی ڈھائی ہزار روپے ماہوار کسی کے دوہزار ، فلموں کی تیاری کے دوسرے گرا نقد مصارف وہ اس کے علاوہ ہیں اس سے اندازہ کیجیئے کہ فلموں پر ماہانہ کتنا خرچ ہو تا ہو گا پھر جو سرمایہ دار فلم سازی پر اتنا سرمایہ خرچ کرتے ہیں وہ اس سے کتنا فائدہ حاصل کرتے ہوں گے اس سے اندازہ لگایئے کہ مفلس ہندوستان کے لئے سینما کس قدر غارت گراور تباہ کن ہے ۔
ضرورت ہے کہ علماء کا طبقہ اس طرف توجہ کرے ، اور اخبارات ، مقررین ، واعظین اپنے اپنے حلقہ اثر میں سینما کے نقصانات سے پبلک کو مطلع کر کے اس سے روکنے کی کوشش کر یں ، ، (اہلحدیث گزٹ بابت اکتوبر ۱۹۳۲ء)
نوٹ
جو مسلمان سینما بائیسکوپ کاکاروبار کرتے ہیں وہ ذرااسلام کی تعلیم کی روشنی میں اپنے اس دھندے پر غور کریں اور انصاف کی عینک لگا کر دیکھیں کہ ان کا یہ دھنداحلال ہے یا حرام ؟
فاتقو اللہ ایہا المسلمون لعلکم ترحمون.
فتاویٰ ثنائیہ
جلد 2 ص 471