کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1137
گاہک کا مال بھول کر چلے جانا...الخ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ اگر دکان میں کوئی اجنبی گاہک مال خریدنے آوےاور قیمت دے جاوے یا دوسری دوکان سے خرید کر لایا ہو اور مال بھول کر چلا جاوے اور یہ نہ معلوم ہو کہ وہ کہاں کا رہنے والا تھا تو اب اس کے بھولے ہو ئے اور چیز کو کیا کیا جاوے ؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! بھولی چیز لقطہ ہے ایک سال تک اس کے مالک کا انتظار کیا جائے نہ آئے تو اس کو پہچان کر استعمال کر لیں کبھی اس کا مالک آجائے تو قیمت دے  دیں،  (اہلحدیث ۸جمادی الثانی ۳۳ء؁) تشریح:۔  قیمتی چیزوں کے لئے یہ حکم ہے الدرالبہیہ میں ہے،  ولا باس بان ینتقع الملتقط بالشئی الحقیر کا لعصاوالسوط وہمابعد التعریف بہ ثلاثہ ر الروضة الندیة ج ۶ص ۶۴۴) یعنی کوئی چھوٹی موٹی چیز مثل عصا یا کوڑا وغیرہ کے کسی کومل جاوے تو اس کو تین دن تک معلوم کرائے اگر اس کا مالک معلوم نہ ہو سکے تو پھر اس کے استعمال کتنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ احمد وابوداؤد میں حضرت جابر سے  حدیث مروی ہے  قال رخص لنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ سلم فی العصاد السوط والحبل واشباہم یلتقطہ الرجل ینتفع بہ و  فی اسنادہ المغیرہ بن ذیادہ وفیہ مقال و قدوثقہ وکیع وابن معین وابن عدی وفی الصلحیحین من حدیث انس ان النبی صلی اللہ علیہ والہ سلم مربتمرة فی الطریق فقال لولا انی اخان ان تکون من الصدقة لا کلتہا وقد اخراج احمد والطبر انی والبیہقی من حدیث یعلی بن مرة مرفوعاًمن التقط لقطة یسیرةحبلا اودرہما اوشبہ ذلک فلیعرفہا ثلثة ایام ان کان فرق ذلک فلیعرفہ ستة ایام زادا الطبرانی فان جاءصاحبہا فلیصد ق بہاء (حوالہ مذکور) . ان روایات کا مفہوم بھی یہی ہے کہ رسی ، عصار، کوڑا یا ایک چونی تک چیزیں تین دن تک یا پھر ذیادہ سے ذیادہ چھ دن تک مشتہر کی جاویں بعد میں ان کو استعمال میں لایا جاسکتا ہے یا پھر صدقہ کردیا جائے،  (مؤلف) فتاویٰ ثنائیہ جلد 2 ص 423