کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1088
قسطوں کا کاروبار حرام اور سود ہے؟
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
آج تک یہی سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ قسطوں کا کاروبار حرام اور سود ہے۔ لیکن ہفت روزہ اہل حدیث میں مولانا صاحب نے جائز قرار دیا ہے ۔ براہِ مہربانی وضاحت فرما دیں۔ شکریہ۔ (محمد سروردکاندار ، چک چٹھہ ،حافظ آباد)
ہفت روزہ اہلحدیث ۲۵ ربیع الاوّل ۱۴۲۳ھ میں
الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد!
مولانا حافظ ابو محمد عبدالستار الحماد میاں چنوں کا فتویٰ
سوال :…فاروق آباد سے سعید ساجد لکھتے ہیں کہ آج کل قسطوں کا کاروبار تقریباً ۷۵/ فی صد لوگ کر رہے ہیں ، جس کی صورت یہ ہے کہ ایک آدمی کوئی گاڑی نقد خریدتا ہے تو وہ پانچ لاکھ روپے کی ہے لیکن قسطوں میں وہی گاڑی آٹھ لاکھ روپے میں ملتی ہے کیا یہ صورت سود کے زمرے میں تو نہیں آتی؟
واضح رہے کہ صورتِ مسئولہ کا تعلق مالی معاملات سے ہے ،مالی معاملات کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’ اے ایمان والو1 آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے مت کھاؤ مگر یہ کہ کوئی مال رضا مندانہ تجارت کی راہ سے حاصل ہو جائے۔‘‘ (سورۃ النساء:۲۹)
باطل طریقہ سے مراد لین دین ، کاروبار اور تجارت کے وہ طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضا مندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد محفوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا غرر یاضرر کا ہدف بنتا ہے۔ اگر کسی معاملہ میں دھوکا پایا گیا یااس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہو تو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی بھی ہوں تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں ۔ جنہیں شریعت نے ناجائز ٹھہرایا ہے اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی ناجائز دباؤ سے ہواور نہ ہی اس میں فریب اور ضرر کو دخل ہو اگر چہ خرید و فروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے۔ [وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ } (بقرۃ: ۲۷۵) [’’اور اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے۔‘‘]لیکن ہر قسم کی خرید و فروخت حلال نہیں ہے۔ بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے۔
1 فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔
2 خرید کر دہ اشیاء اور ان کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔
3 قابل فروخت چیز فروخت کنندہ کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔
4 فروخت کردہ چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوا نہ ہو۔
5 خرید و فروخت کسی حرام چیز کی نہ ہو اور نہ ہی اس میں سود وغیرہ کو بطورِ حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔
6 اس خرید و فروخت میں کسی فریق کو دھوکہ دینا مقصود نہ ہو۔
7 اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو ۔
کتب حدیث میں خرید و فروخت کی تقریباً تیس(۳۰) اقسام کو انہیں وجوہ کی بنیاد پر حرام ٹھہرایا گیا ہے ۔ پھر عام طور پر خریدو فروخت کی دو قسمیں ہیں:
(۱) ۔نقد (۲) ۔اُدھار
نقد یہ ہے کہ چیز اور اس کا معاوضہ فورًا حوالے کر دیا جائے پھر معاوضہ کے لحاظ سے اس کی مزید دو اقسام ہیں:
(۱)۔ معاوضہ نقدی کی صورت میں ہو۔ (۲)۔ معاوضہ جنس کی صورت میں ہو۔
جہاں معاوضہ جنس کی صورت میں ہو اس کی دو صورتیں ہیں: (۱)۔ حرام (۲)۔ جائز
حرام یہ ہے کہ ایک ہی جنس کی خریدو فروخت میں ایک طرف سے کچھ اضافہ ہو جیسا کہ ایک تولہ سونا دے کر دو تولے سونا لینا ایک کلو کھجور کے بدلے دو کلو کھجور لینا وغیرہ۔
جائز یہ ہے کہ مختلف اجناس کی خرید وفروخت کرتے وقت کسی ایک طرف سے کچھ اضافہ کے ساتھ وصولی کرنا مثلاً ایک من گندم کے عوض دو من جو لینا ، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ سودا نقد بنقد ہو۔
خرید وفروخت کے اُدھار ہونے کی صورت میں بھی اس کی کئی اقسام ہیں : مثلاً:
(۱)… چیز اور اس کا معاوضہ دونوں ہی اُدھار ہوں ، ایسا کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ۔ فقہی اصطلاح میں اسے بیع الکالی کہتے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔
(۲)… اگر دونوں میں سے ایک نقد اور دوسری اُدھار ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں:
(۱لف)معاوضہ نقدی کی صورت میں پہلے ادا کر دیا جائے لیکن مبیع یعنی فروخت کر دہ جنس بعد میں حوالہ کرنا ہو اسے بیع سلم یا سلف کہا جاتا ہے اس کی شرعاً اجازت ہے بشرطیکہ : (۱)جنس کی مقدار اور اس کا بھاؤ پہلے سے طے شدہ ہو۔ (۲)جنس کی ادائیگی کا وقت بھی متعین ہو۔
(ب)مبیع یعنی فروخت کردہ چیز پہلے وصول کر لی جائے لیکن معاوضہ کی ادائیگی اُدھار ہو ، یہ بھی جائز ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمر کے آخری دور میں ایک یہودی سے آئندہ قیمت کی ادائیگی پر کچھ جو لیے تھے اسے بیع نسئیہ کہتے ہیں ، اس بیع کی دو صورتیں ہیں:(۱)فروخت کردہ چیز کا بھاؤ ایک ہو خواہ نقد یا اُدھار ، اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ (۲) فروخت شدہ چیز کے نقد اُدھار کے دو بھاؤ ہوں اس کے جواز یا عدم جواز کے متعلق علماء کا اختلاف ہے ، صورت مسئولہ میں بھی اسی کو بیان کیا گیا ہے ، اس کے متعلق ہم نے کچھ گزارشات پیش کرنا ہیں لیکن ان گزارشات سے پہلے دو اصولی باتیں گوش گزار کرنا ضروری خیال کرتے ہیں:
1 معاملات اور عبادات میں فرق یہ ہے کہ عبادات میں اصل حرمت ہے الا یہ کہ شریعت نے اس کی بجا آوری کا حکم دیا ہو جبکہ معاملات میں اصل اباحت ہے الا یہ کہ شریعت نے کسی کے متعلق حکم امتناعی نہ دیا ہو۔ صورتِ مسئولہ کا تعلق معاملات سے ہے اس کے متعلق ہم نے حکم امتناعی تلاش کرنا ہے۔ بصورتِ دیگر یہ حلال اور جائز ہے۔
2 کسی چیز کا بھاؤ متعین کر دینا شرعاً جائز نہیں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکو اہل مدینہ نے اشیاء کے بھاؤ متعین کر دینے کے متعلق عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی خالق اور اُتار چڑھاؤ کا مالک ہے نیز وہ تمام مخلوق کا رازق ہے میں نہیں چاہتا کہ قیامت کے دن میرے ذمے کسی کا کوئی حق ہو۔‘‘1 (مسند امام احمد:۳/۱۵۶)
اس بناپر اشیاء کی قیمتیں توقیفی نہیں ہیں کہ ان میں کمی بیشی نہ ہو سکتی ہو نیز کسی چیزکا نفع لینے کی شرح کیا ہو؟ اس کے متعلق بھی شریعت کا کوئی ضابطہ نہیں ہے بعض صحابہ کرامرضوان اللہ علیھم اجمعین سے ایسے واقعات بھی منقول ہیں کہ انہوں نے قیمت خرید پر دو گنا وصول کیا۔ (صحیح بخاری)2
صورتِ مسئولہ یوں ہے کہ ایک دکاندار اپنی اشیاء بایں طور فروخت کرتا ہے کہ نقد ادائیگی کی شکل میں ایک چیز کی قیمت ۳۰۰ روپے ہے لیکن وہی چیز ایک سال کے اُدھار پر ۴۰۰ روپے میں اور دوسال کے اُدھار پر ۵۰۰ روپے میں فروخت کرتا ہے ۔ اُدھار کی شکل میں خریدار کو اختیار ہے کہ وہ سال کے اختتام پر واجب الاداء رقم یکمشت ادا کر دے یا حسب معاہدہ اس رقم کو بالاقساط ادا کرے، موجودہ دور میں قسطوں پر اشیاء ضرورت بیچنے کا رواج تمام اسلامی ممالک میں عام ہو چکا ہے اور بہت سے لوگ اپنی ضرورت کی اشیاء صرف قسطوں پر خریدسکتے ہیں اور نقد خریدنا ان کی طاقت سے باہر ہوتا ہے واضح رہے کہ قسطوں کی صورت میں ایک چیز کی قیمت بازاری قیمت سے زیادہ مقرر کی جاتی ہے بعض علماء اس زیادتی کو ناجائز کہتے ہیں کیونکہ ثمن کی یہ زیادتی’’ مدت‘‘ کے عوض میں ہے اور جو ثمن ’’مدت ‘‘ کے عوض میں ہو وہ سود ہے جسے شریعت نے حرام کہا ہے ۔ علامہ شوکانی نے زین العابدین علی بن حسین ، ہادویہ کا یہی مسلک نقل کیا ہے۔لیکن ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء اور محدثین کا مسلک یہ ہے کہ خرید و فروخت کے عمومی دلائل کے پیش نظر اُدھار بیع میں نقد کے مقابلہ میں قیمت زیادہ کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ خریدار اور فروخت کنندہ اُدھار یا نقد قطعی فیصلہ کر کے کسی ایک قیمت پر متفق ہو جائیں (نیل الاوطار :۵/۱۷۲)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ترمذی؍کتاب البیوع؍باب ما جاء فی التسعیر۔ابو داؤد؍کتاب الاجارۃ؍باب التسعیر ابن ماجہ؍کتاب التجارات؍باب من کرہ ان یعسر
2 بخاری؍کتاب المناقب؍باب علامات النبوۃ فی الاسلام۔ ترمذی؍کتاب البیوع؍باب ۳۴
لہٰذا اگر بائع یہ کہے کہ میں یہ چیز نقد اتنے میں اور اُدھار اتنے میں فروخت کرتا ہوں ، اس کے بعد کسی ایک بھاؤ پر اتفاق کیے بغیر دونوں جدا ہو جائیں جہالت ثمن کی وجہ سے یہ بیع ناجائز ہے لیکن اگر عاقدین مجلس عقد میں ہی کسی ایک شق اور کسی ایک ثمن پر اتفاق کر لیں تو بیع جائز ہو جائے گی چنانچہ امام ترمذی جامع ترمذی میں لکھتے ہیں:’’بعض اہل علم نے حدیث ’’ بیعتین فی بیعۃ‘‘ کی تشریح بایں الفاظ کی کہ’’ بائع مشتری سے کہے کہ میں کپڑا تمہیں نقد دس اور اُدھار بیس روپے میں فروخت کرتا ہوں اور پھر کسی ایک بیع پر اتفاق کر کے جدائی نہیں ہوئی لیکن اگر ان دونوں میں سے کسی ایک پر اتفاق ہونے کے بعد جدائی ہوئی تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ معاملہ ایک پر طے ہو گیا ہے۔‘‘ (جامع ترمذی/کتاب البیوع)
امام ترمذی کی عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ بیعتین فی بیعۃ‘‘ کے ناجائز ہونے کی علت یہ ہے کہ عقد کے وقت کسی ایک صورت کی عدم تعیین سے ثمن دو حالتوں میں متردد ہو جائے گی اور یہ تردد جہالت ثمن کو مستلزم ہے ، جس کی بناء پر ناجائز ہوئی ، مدت کے مقابلہ میں ثمن کی زیادتی ممانعت کا سبب نہیں لہٰذا اگر عقد کے وقت ہی کسی ایک حالت کی تعیین ہو جائے اور جہالت ثمن کی خرابی دور کر دی جائے تو پھر اس کے جواز میں شرعاً کوئی قباحت نہیں رہے گی ، یہی موقف راجح ہے کیونکہ قرآن و حدیث میں اس بیع کے عدم جواز پر کوئی نص موجود نہیں ، علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ معاملات کے متعلق فرماتے ہیں:’’ جو معاملات انسان کو ضرورت کے طور پر پیش آتے ہیں وہ سب حلال اور جائز ہیں الا یہ کہ اس کی حرمت پر قرآن و حدیث میں کوئی واضح دلیل موجو د ہو۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ:۲۸/۳۸۶)
ہم نے آغاز میں جو ایک اصول بیا ن کیا تھا اسے ایک مرتبہ پھر بنظر غائر دیکھ لیا جائے اور اس بیع میں جو ثمن کی زیادتی ہے اس پر ربا کی تعریف بھی صادق نہیںآتی کیونکہ وہ قرض نہیں اور نہ ہی اموال ربویہ کی خریدو فروخت ہو رہی ہے بلکہ یہ عام بیع ہے اور اس عام بیع میں فروخت کنندہ کو شرعاً مکمل اختیار ہے کہ وہ اپنی چیز جتنی قیمت میں چاہے فروخت کرے اور اس کے لیے شرعاً یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنی چیز کو بازار کے بھاؤ سے فروخت کرے اور قیمت کی تعیین میں ہر تاجر کا اپنا ایک اصول اور انداز ہوتا ہے ۔ اس پر پابندی نہیں ہے کہ وہ ایک متعین ریٹ پر اپنی اشیاء کو فروخت کرے اس سلسلہ میں ہمارا بیان کردہ دوسرا اُصول پیش نظر رہنا چاہیے کہ بعض اوقات ایک ہی چیز کی قیمت حالات کے اختلاف سے مختلف ہو تی ہے اگر کوئی بائع اپنی چیز کی قیمت ایک حالت میں کچھ مقرر کرے اوردوسری حالت میں کچھ مقرر کر دے تو شریعت نے اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی ، لہٰذا اگر کوئی شخص اپنی چیز نقد آٹھ روپے میں اور اُدھار دس روپے میں فروخت کرتا ہے تو اس شخص کے لیے بالاتفاق یہ جائز ہے کہ وہ اسی چیز کو نقد دس روپے میں فروخت کر دے بشرطیکہ اس میں ضرر یا غرر نہ ہو اور جب دس روپے میں نقد فروخت کرنا جائز ہے اور اُدھار دس روپے میں فروخت کرنا کیوں ناجائز ہوا؟ (فتدبر)
اب ہم قارئین کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ زیر نظر مسئلہ میں نقد کی نسبت سے اُدھار قیمت میں یہ تفاوت کیا اُدھار کا عوض ہے یا اُدھار کی وجہ سے ہے؟ ان دونوں کے درمیان مابہ الامتیاز کیا ہے تاکہ بذریعہ نص حرام اور ناجائز سود سے اس کا فرق ہو سکے ، واضح رہے کہ اُدھار کی وجہ سے قیمت میں یہ تفاوت اُدھار کا معاوضہ نہیں ہے کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ اس اُدھار کی قیمت میں جو کچھ قیمت تو بیع کی ہو اور کچھ قیمت اس اجل کی ہو جو عاقدین نے قیمت کی ادائیگی کے لیے طے کی ہے۔ بلکہ معاشرتی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اُداھار میں جو سہولت میسر آتی ہے اس کی وجہ سے کچھ اضافہ ہوا ہے ۔ ہم آسانی کے پیش نظر اسے یوں تعبیر کر تے ہیں: ان الزیادۃ ھٰھنا لاجل لا لعوض الاجل‘‘ یہاں پر قیمت میں اضافہ اُدھار کی وجہ سے ہے اُدھار کے عوض میں نہیں ہے۔قرآن و حدیث میں اس قسم کے متعدد نظائر پائے جاتے ہیں جس میں اُدھار کی وجہ سے قیمت میں زیادتی آتی ہے جنہیں ہم آئندہ بیان کریں گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اجل ایک وصف ہے اور وصف کا معاوضہ نہیں ہوتا لیکن وصف کے مرغوب ہونے کی وجہ سے قیمت بڑھ سکتی ہے اور وصف کے ناپسند ہونے کی وجہ سے قیمت کم ہو جاتی ہے اس کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو صاع کھجور کے عوض ایک صاع کھجور لینے کو ناجائز ٹھہرایا ہے 1 آپ نے اس کے متعلق مزید تاکید کی ہے کہ عمدہ اور ردّی کھجور کا بھی مقابلہ ہو تو برابر برابر لینا ہو گا۔2 اس کے عمدہ ہونے کی صورت میں اضافہ نہ دے سکتے ہیں اور نہ ہی لے سکتے ہیں ۔ بہترین کھجور کے ایک سیر کے بدلہ میں معمولی کھجور کے دو سیر دینے سے منع فرمادیا کیونکہ اس میں سیر کے بدلے میں آجاتا ہے اور دوسرا سیر اس کے وصف جو دت (عمدگی) کے عوض میں لیا جاتا ہے جو کہ ناجائز ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تدبیر یوں فرمائی کہ ردی کھجور کو کم قیمت پر فروخت کر دو پھر حاصل ہونے والے زر ثمن سے بہتر کھجور کو زیادہ قیمت سے خرید لو ۔3 اس معاملہ میں بہتر کھجور کی قیمت میں اضافہ اس کے وصف مرغوب کی وجہ سے ہے ۔ اس عقلی اور فطری بات سے کسی کو بھی انکار نہیں کہ مرغوب چیز کی قیمت بمقابلہ نا مرغوب کے زیادہ ہے ۔ لیکن یہ صورت ناجائز ہے کہ ایک سیر بہتر کھجور کے بد ل میں دو سیر معمولی کھجور دی جائے اس طرح یہ بھی ناجائز ہے کہ بہتر کھجور والے کو معمولی کھجور کا ایک سیر اور اس کے ساتھ ایک روپیہ بھی دے دیا جائے کیونکہ اس صورت میں یہ روپیہ یا دوسرا سیر وصف جو دت کا عوض ثابت ہو گا اور وصف کا عوض لینا جائز نہیں ہے۔ لیکن بہتر کھجور کو عام نرخ سے زیادہ قیمت پر خریدنا بالکل جائز ہے کیونکہ یہاں قیمت کا اضافہ اس کے وصف (عمدگی)کی وجہ سے اس وصف کا عوضانہ نہیں ہے ۔ آپ نے ملتان سے لاہور جانے کا پروگرام بنایا ہے اس کے لیے عام گاڑی ، اے سی اور ہوائی جہاز تین ذرائع ہیں ، ان تینوں ذرائع کا کرایہ الگ الگ ہے ، یہ تفاوت ان ذرائع میں دی گئی سہولتوں کے پیش نظر ہے ایسا نہیں ہوتا کہ اصل کرایہ تو عام گاڑی کا ہے باقی جو کرایوں میں تفاوت ہے وہ ان سہولتوں کا عوض ہے جو آ پکو دی گئی ہیں۔ اب آپ اُدھار پر فروخت کی گئی چیز کی مدت پر غور کریں کہ نفس اجل کا عوض لینا ناجائز ہے لیکن اس کی وجہ سے قیمت کا بڑھ جانا فطری اور عقلی بات ہے اور شریعت نے اس سے منع نہیں کیا ، اسی کو فقہاء اسلام نے یوں تعبیر کیا ہے:’’ ان الاجل لا یقابلہ الثمن و ان الثمن یزاد لِلْاَجل ‘‘ ’’ثمن ، اجل کا عوض نہیں ہوتی البتہ اجل کی وجہ سے اس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مسلم؍کتاب البیوع؍باب بیع الطعام مثلاً بمثل 2 مسلم؍کتاب البیوع؍باب بیع الطعام مثلاً بمثل
3 مسلم؍کتاب البیوع؍باب بیع الطعام مثلاً بمثل
نفس اجل پر عوض لینے کی صورت یوں ہو سکتی ہے کہ ایک ماہ پر کسی چیز کا اُدھار سودا ہوا کہ اس کی قیمت ایک ہزار روپیہ ایک ماہ پر ادا ہو گی ، جب خریدار نے ایک ماہ بعد اس کی قیمت ادا نہ کی تو اسے کہا جائے کہ آپ دوسرے ماہ کے اختتام پر اس کی قیمت ادا کر دیں لیکن ساتھ پچاس روپے اضافی طور پر دیں۔ یہ صورت ناجائز ہے کیونکہ اس میں اجل کو فروخت کیا گیا ہے اور پچاس روپے اس اجل کا عوض ہیں اس کے برعکس اجل ایک وصف مرغوب ہے کہ مشتری کو فوری طو رپر رقم ادا نہیں کرنا پڑتی ، آسانی سے کام چلا لیتاہے۔ اس لیے وہ چیز اُدھار پر دینے کی وجہ سے اس کی قیمت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس بیع مؤجل اور معاملہ سود میں فرق یہ ہے کہ سودی معاملہ میں اصل دین( قرض) پر مہلت کے عوض اضافہ ہوتا ہے جبکہ بیع مؤجل میں مہلت کی وجہ سے بوقت عقد زیادہ قیمت طے کی جاتی ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ سودی معاملہ میں مدت کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس زیادتی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے جبکہ بیع مؤجل میں ایک ہی دفعہ قیمت زیادہ لگائی جاتی ہے ،بار بار ایسا نہیں کیا جاتا ، ہم اسے ایک مثال سے سمجھاتے ہیں:
اگر مشتری نے کوئی چیز دس روپے میں اس شرط پر خریدی کہ ایک ماہ بعد اس کی قیمت ادا کر ے گا اگر وہ ایک ماہ کے بجائے دو ماہ میں قیمت ادا کرے گا تو بھی وہ دس روپے ہی ادا کرے گا۔ اب مدت کی زیادتی کی وجہ سے قیمت میں زیادتی نہیں ہو گی۔ لیکن اگر بائع معاملہ طے ہونے کے بعد ایک ماہ کی تاخیر پر دو ، پھر دو ماہ کی تاخیر پر چار اور اسی طرح تین ماہ کی تاخیر پر چھ روپے اصل طے شدہ رقم سے زیادہ وصول کرے تو یہ سود ہے جو کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔
قارئین کرام! جیسا کہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ زیرِ نظر مسئلہ یعنی نقد اور اُدھار کے بھاؤ میں کمی بیشی کرنا شرعاً جائز ہے۔ کیونکہ یہ اُدھار خرید و فروخت کی ہی ایک صورت ہے جس کی شریعت نے اجازت دی ہے۔ اور اس کے متعلق صریح نصوص موجود ہیں ۔ تاہم اُدھار کی بناء پر قیمت زیادہ وصول کرنا فکر و نظر اور غورو خوض کی متقاضی ہے کیونکہ خریدو فروخت کی بعض صورتیں ایسی ہیں کہ ان میں اُدھار جائز نہیں ہے جیسا کہ سونے کے بدلے سونا یا گندم کے عوض گندم لینا اسی طرح بعض صورتیں ایسی ہیں کہ کسی طرف سے اضافہ حرام ہے جیسا کہ چاندی کے بدلے چاندی کا کاروبار کرنا ، نیز اُدھار کی وجہ سے قیمت بڑھا دینا کسی صریح نص سے ثابت نہیں ہے ۔ البتہ قرائن و شواہد اور استنباط و استخراج سے اس کا جواز ملتا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
’’ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ایمان والو! جب تم ایک وقت مقررہ تک اُدھار کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو‘‘[البقرۃ:۲۸۵]
اس آیت کو آیت مداینہ کہا جاتا ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے مقررہ مدت تک کیے ہوئے عقد سلم کے معاملہ کو اپنی کتاب میں آیت مداینہ کی رُو سے حلال قرار دے کر اس کی اجازت دی ہے۔‘‘ (مستدرک حاکم:۲/۲۸۶)
عقد سلم کی تعریف محدثین اور فقہاء نے بایں الفاظ کی ہے:’’ بیع اجل بعاجل‘‘ نقد پیشگی قیمت دے کر آئندہ خرید کر دہ چیز وصول کرنے کا عقد ، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اگر کوئی مشتری مقرر شرائط کی رعایت کرتے ہوئے کسی شخص کو ایک ہزار روپیہ دے اور یہ معاہدہ کرے کہ تم یہ رقم پیشگی وصول کر کے فلاں وقت میں مجھے اتنی گندم اس بھاؤ سے دینے کے پابند ہو اور بائع بھی مقرر شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے رقم وصول کر کے معاہدہ کرے تو اسے عقد سلم کہا جاتا ہے ، اس عقد کی ماہیت پر غور کرنے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ مشتری وقتی طور پر یکمشت زر سلم کی ادائیگی پر تیار ہو کر مہینوں تک خرید کردہ چیز کی وصولی کا انتظار کرتا ہے ایسا کیوں ہے؟ کیا اس میں فریقِ ثانی کی خیر خواہی اور ہمدردی مقصود ہے ؟ ہر گز نہیں اگر ایسی بات ہوتی تو اسے قرض حسنہ دے کر مشکل کے وقت اس کے کام آتا۔ متعدد شرائط کی رعایت کر کے پیشگی رقم دے کر مہینوں تک خرید کردہ چیز کی وصولی کا انتظار کرنے سے اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ اسے مقررہ وقت پر خرید کردہ چیز ارزاں قیمت پر میسر ہو کیونکہ عقد سلم میں خرید کردہ چیز بائع کو بازار کی قیمت سے سستی پڑتی ہے۔
اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ عقد سلم میں قیمت کی پیشگی ادائیگی اور خرید کردہ چیز کی تاخیر سے اس چیز کی قیمت متاثر ہوتی ہے۔ عقد سلم میں ادھار شرط ہے جیساکہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں ا س پر ایک عنوان بھی قائم کیا ہے اگر اس میں اُدھار نہ ہو تو عقد سلم کی حقیقت ہی ختم ہو جاتی ہے۔ لہٰذا جب بیع آجل بعاجل میں اُدھار کی وجہ سے قیمت میں تفاوت کا آنا ممنوع نہیں تو زیر نظر مسئلہ جو دراصل بیع عاجل بآجل ہے ۔ اس میں قیمت کا تفاوت کیوں ممنوع قرار دیا جائے۔ بلکہ نقد اور اُدھار کی وجہ سے خرید کردہ چیز اور اس کی قیمت کا متاثر ہو کر کم یا زیادہ ہونا غیر مشروع نہیں اور نہ ہی سود کے زمرے میں آتا ہے۔ (فتدبر)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے ابو الشحم نامی ایک یہودی سے جو اُدھار پر لیے اور اپنی زرہ اس کے ہاں گروی رکھی۔ (صحیح بخاری/کتاب البیوع/ باب شراء النبی بالنسیئۃ)
ہم یہودی کے اس معاملہ کا بغور جائزہ لیتے ہوئے ایک متعصب دشمن اسلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ اور اس کے بعد روزمرہ ضروریات میں کام آنے وال چیز زرہ کو رہن رکھنے کے پس پردہ واقعات کا جائزہ لینے سے جو صورت سامنے آتی ہے اس میں زیرِ نظر مسئلہ کے جواز پر قوی شواہد موجود ہیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرہ میں جب کسی چیز کی مانگ زیادہ ہو تو اس کے خریدار بھی بڑھ جاتے ہیں اور جب خریدار زیادہ ہوں تو اس چیز کے نقد فروخت ہونے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں ایسے مواقع پر بائع اُدھار کی نسبت نقد کو زیادہ ترجیح دیتا ہے۔ ہاں اگر اسے اُدھار فروخت کرنے میں مالی منفعت زیادہ نظر آئے تو پھر اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے اس معاملہ کے وقت مدینہ منورہ کی معاشی حالت یہ تھی کہ غلہ کی ضرورت بہت زیادہ تھی عموماً لوگوں کو بیرونی قافلوں کے آنے کا انتظار کرنا پڑتا اور جب کبھی قافلہ آنے کی خوشخبری سنائی جاتی تو فاقہ زدہ معاشرہ کی حالت بسا اوقات غیر ہو جاتی۔چنانچہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 1خطبہ جمعہ دے رہے تھے کہ قافلہ آنے کی خبر ملی ، خبر سنتے ہی صحابہ کرامرضوان اللہ علیھم اجمعین کی کثیر تعداد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ کی حالت میں اکیلے چھوڑ کر قافلہ کی طرف دوڑ پڑی او ر اس وقت خرید و فروخت کی مارکیٹ پر یہودیوں کا قبضہ تھا۔ وہ قافلہ سے غلہ خرید کر بعدمیں اپنی مرضی کی قیمت پر اسے فروخت کرتے تھے۔ ایسی ضرورت کی اشیاء میں انہیں نقد کا گاہک بسہولت میسر تھا۔ یہ لوگ نقد کی بجائے اُدھار کو ترجیح کسی شوق یا جذبہ ہمدردی کی وجہ سے نہ دیتے تھے بلکہ مالی منفعت کی خاطر اُدھار کا معاملہ کرتے تھے ۔ ایسے حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُدھار کے معاملہ سے غالب گمان یہی ہے کہ نقد کی نسبت سے اُدھار کی قیمت کا تفاوت لازمی طور پر اختیار کیا گیا ہو گا ، مالی منفعت اور زیادہ قیمت کی وصولی کے سوا یہودی کے اس اقدام کے لیے اور کوئی دوسرا محرک نظر نہیں آتا تھا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 بخاری؍کتاب التفسیرسورۃ الجمعۃ؍باب واذارأو تجارۃ او لھوا ۔مسلم؍کتاب الجمعۃ؍باب فی قولہ تعالیٰ واذآ رأوا تجارۃ اولھوا ۔ ترمذی؍کتاب التفسیر سورۃ الجمعۃ۔
آخر میں ہم شیخ عبدالعزیز بن باز کا ایک فتویٰ درج کیے دیتے ہیں کیونکہ اس فتویٰ سے مزید کئی پہلو روشن ہوتے ہیں۔ شیخ صاحب سے کسی نے بایں الفاظ سوال کیا :
’’بیع میں اگر نقد کی نسبت اُدھار یا قسطوں پر قیمت زیادہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟ ‘‘
اس پر آپ نے حسب ذیل جواب دیا:
’’ معلوم مدت والی بیع جائز ہے جبکہ اس بیع میں معتبر شرائط پائی جاتی ہوں ، اس طرح قیمت کی قسطیں کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں جبکہ یہ اقساط معروف اور مدت معلوم پر مشتمل ہوں چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ اے ایمان والو! جب تم ایک مقررہ مدت کے اُدھار پر لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔‘‘ (البقرۃ:۲۸۲)
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ؛’’جب کوئی شخص کسی چیز میں بیع سلم کرے تو ناپ تول اور مدت معین کر کے کر لے۔‘‘(صحیح بخاری)1
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہما کے متعلق احادیث میں ہے کہ انہوں نے خود کو اپنے مالکوں سے نواوقیہ چاندی میں خرید لیاکہ ہر سال ایک اوقیہ چاندی ادا کر نا ہوگی۔ (صحیح بخاری)…2
یہی قسطوں والی بیع ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیع کو معیوب خیال نہیں کیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اس سے منع نہیں فرمایا اور اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ قسطوں میں قیمت نقد کے برابر ہو یا مدت کی وجہ سے زیادہ ہو۔ (فتاویٰ شیخ عبدالعزیز بن باز :۱۴۲)
ایک اور فتویٰ میں آپ نے اس روایت سے بھی اس کے جواز پر استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ ایک لشکر ترتیب دیں اور اس کے لیے لوگوں سے حاضر اونٹ اس شرط پر خرید لیں کہ جب زکوٰۃ کے اونٹ آئیں گے تو ایک اونٹ کے عوض دو اونٹ دیے جائیں گے۔ (مستدرک حاکم و بیہقی)3
ان قرائن و شواہد کی بنا ء پر ہم کہتے ہیں کہ نقد اور اُدھار کی قیمت میں فرق کیا جا سکتا ہے اور اُدھار کی اقساط بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ معاملہ غلط ہے کہ اگر کسی ایک قسط میں دیر ہو جائے تو اس کی باقی اقساط ضبط کرلی جائیں یامدت بڑھا کر ان میں اضافہ کر دیا جائے ایسا کرنا سراسر زیادتی اور ظلم کے ساتھ ساتھ صریح سود ہے۔ (واللہ اعلم )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 بخاری؍کتاب السلم؍باب السلم فی کیل معلوم۔ مسلم؍کتاب البیوع؍باب السلم۔ ترمذی؍کتاب البیوع؍باب ما جاء فی السلف فی الطعام والتمر۔ ابن ماجہ؍کتاب التجارات؍باب السلف فی کیل معلوم و وزن معلوم الی أجل معلوم۔
2 بخاری؍کتاب المکاتب ؍باب استعانۃ المکاتب وسؤالہ الناس۔
3 ابو داؤد؍کتاب البیوع؍باب فی الرخصۃ حدیث ضعیف ہے۔ وضاحت ص:۵۱۶ پر ملاحظہ فرمائیں۔
از عبدالمنان نور پوری بطرف محترم محمد بشیر سیالکوٹی
(رئیس التحریر مجلۃ ’’نداء الاسلام‘‘ حفظھما اللہ القدوس السلام)
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ:…
اما بعد! میں نے آپ کے مجلہ ’’ نداء الاسلام ‘‘ کے سال چہارم کے پہلے شمارہ کا مطالعہ کیا ، اس میں میں نے جناب دکتور حسین مطاوع الترتوری حفَظہُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ ، وَبَارَکَ فِیْ عِلْمِہِ وَعَمَلِہٖ ، وَوَفَّقَنا وَإِیَّاہُ لِمَا یُحِبُّہُ وَیَرْضَاہُکا مضمون’’قسطوں کی بیع‘‘ پڑھا ، جس میں انہوں نے قسطوں کو جائز قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس مضمون کی فصل ’’ مُنَاقَشَۃُ الْأدِلَّۃِ وَبَیَانُ الرَّاجِحِ‘‘( دلائل کا مناقشہ اور راجح چیز کا بیان) میں فرماتے ہیں:
’’راجح ۔ واللہ اعلم۔ یہی ہے کہ قسطوں کی بیع جائز ہے خواہ اس میں قیمت زیادہ ہی دینی پڑے ، بشرطیکہ خریدو فروخت کے وقت شروع میں ہی یہ بات ہو جائے ( کہ پیسے تاخیر سے دینے ہیں اور اتنی مقدار میں دینے ہیں) ترتوری صاحب مضمون کے آخر میں فرماتے ہیں:
خلاصہ یہ ہے کہ قسطوں کی بیع جائز ہے……
صاحب مضمون کے دلائل:
صاحب مضمون نے اپنے دعویٰ کے اثبات کے لیے مندرجہ ذیل چند دلائل پیش کیے ہیں:
۱۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: [وَأَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ}(اللہ تعالیٰ نے خریدو فروخت حلال کی ہے (البقرۃ:۲۷۵) کے تحت قسطوں کی بیع بھی داخل ہے۔
۲۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان: [یَآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِِّنْکُمْ[ (اے ایمان والو! اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے نہ کھاؤ ، مگر یہ کہ باہم رضا مندی سے تجارت ہو۔)(النساء:۲۹) کے تحت بھی داخل ہے۔
۳۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث: ((لَا یَحِلُّ مَالُ امْرِیٍ مُسْلِمٍ إِلاَّ عَنْ طِیْبِ نَفْسٍ)) (کسی مسلمان کا مال جائز نہیں مگر اس کی خوشنودی سے ) (مستدرک علی الصحیحین للحاکم کتاب العلم:۳۱۸۔ سنن دار قطنی کتاب البیوع:۹۲) سے بھی قسطوں کی بیع کی اجازت ہے۔
۴۔ اصل میں تمام معاملات ، لین دین جائز ہیں ، جب تک کوئی منع کی دلیل وارد نہ ہو ، اور جو آدمی کہتا ہے کہ قسطوں کی بیع جائز نہیں اس کے پاس کوئی ایسی دلیل موجود نہیں جس سے قسطوں کی بیع کی ممانعت نکلتی ہو۔
۵۔ لوگوں کو ایک چیز کی ضرورت ہو اور نقد پیسے نہ ہوں تو آسان قسطوں پر چیز کو اس کے ریٹ سے مہنگا خرید لینے میں ان کو کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: [وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ[ (اللہ تعالیٰ نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں ڈالی۔)[الحج:۷۸]اور فرماتا ہے: [یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ[ (اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تمہارے ساتھ تنگی نہیں چاہتا۔) [البقرۃ : ۱۸۶]
۶۔ اس وقت ایسے محسنوں کی کمی ہے جو اپنے ضرورت مند بھائیوں کو قرضِ حسنہ دے سکیں۔
۷۔اس سے سود کا دروازہ بند ہو گا کیونکہ ایک آدمی کو جب ایک چیز کی ضرورت ہو اور اس کے پاس اسے خریدنے کے لیے پیسے نہ ہوں ، نہ ہی کوئی قسطوں پر بیچنے کے لیے تیار ہو تو اُسے وہ چیز خریدنے کے لیے سود پر پیسے لینے پڑیں گے۔
۸۔ قیمت میں اضافہ کا جواز تا خیر کا بدل و معاوضہ ہے۔
دلائل کا تجزیہ:
ان آٹھ دلائل میں کوئی دلیل بھی ایسی نہیں ، نہ کوئی اور دلیل ایسی ہے جو صاحب مضمون کے دعویٰ ’’قسطوں کی بیع کے جواز‘‘ کو ثابت کر سکے۔
۱،۲،۳ ( پہلے تین دلائل تو اس لیے دلیل نہیں بنتے کہ غیر شرعی خریدو فروخت اور تجارتیں سرے سے ان تینوں دلائل کے عموم میں داخل ہی نہیں ، اور اگر داخل ہیں تو شریعت نے ان عمومی دلائل سے نکال کر ان کا بطورِ خاص الگ حکم بتایا ہے ۔ ورنہ لازم آئے گا کہ ان کے ساتھ (۱)شراب اور خنزیر کی خریدو فروخت (ب)گندم کی خریدو فروخت برابر وزن سے ، ایک جانب سے نقد اور دوسری جانب سے اُدھار۔ (ج)دونوں جانب سے گندم نقد ہو لیکن ایک فریق زیادہ لے۔(د)ایک فریق کم لے اور دوسرا زائد لے جبکہ ایک اُدھار کرے۔ تو یہ اور اس طرح دوسری بیوع اور تجارتیں اگر رضا مندی سے ہو جائیں تو جائز ہونی چاہئیں؟ لیکن ظاہر ہے کہ سود ہیں تو قسطوں کی بیع بھی صرف رضا مندی کی وجہ سے کیسے جائز ہو گئی؟
صاحب مضمون بھی اس طرح کی خریدو فروخت اور تجارت کو اس بناء پر جائز قرار نہیں دیتے کہ یہ ان دلائل کے عموم کے تحت داخل ہیں ، اس لیے کہ شریعت نے ان کو اور اس طرح کی دوسری بیوع اور تجارات کو حرام قرار دیا ہے۔ اور قسطوں کی بیع بھی انہی بیوع میں سے ہے جنہیں شریعت نے حرام کیا ہے کیونکہ اس میں زیادہ منافع صرف تاخیر کی وجہ سے لیا جاتا ہے۔ اور صرف تاخیر وقت کا منافع شریعت میں جائز نہیں ، جس طرح سود( قرض کے سود اور بیع کے سود) کی حرمت کے بہت سے دلائل سے سمجھ آتا ہے ۔ پھر قسطوں کی بیع ان بیوع سے ہے جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان صادق آتاہے:
(( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا)) (’’جس نے ایک بیع ( چیز فروخت) کے دو بھاؤ لگائے تو اس کے لیے کم ریٹ اور بھاؤ لینا جائز ہے اور اگر زیادہ لیا تو سود ہو گا۔‘‘)
یہ مسئلہ آگے آ رہا ہے۔ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ
لہٰذا ان تین اور ان کے علاوہ دوسرے دلائل سے قسطوں کی بیع کے جواز پر استدلال کرنا درست نہیں۔
چوتھی دلیل اس لیے نہیں بنتی کہ یہاں قسطوں کی بیع کی ممانعت کی مضبوط دلیل موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ قسطوں کی بیع کا انحصار اس پر ہے کہ اس میں صرف تاخیر اور دیر سے ادائیگی کرنے پر منافع لیا جاتا ہے اور یہ ایسی بیوع سے ہے جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا )) صادق آتا ہے۔
پانچویں پیش کردہ دلیل اس لیے صحیح نہیں کہ اس سے شریعت میں ہر حرام کردہ چیز اس وجہ سے جائز اور حلال ٹھہرے گی کہ لوگوں کو اس کی ضرورت ہے مثلاً:
کسی آدمی کو ایک چیز کی ضرورت ہو لیکن خریدنے کے لیے پیسے نقد موجود نہیں ، وہ کسی آدمی سے پیسے لے کر چیز خرید لے اور بعد میں اسے پیسے واپس کر ے تو اضافی رقم بھی ادا کرے اور یہ معاملہ اور لین دین سود کے باوجود حلال ٹھہرے ؟ نہیں۔ ہر گز نہیں! لہٰذا اصل یہی ہے کہ جو چیز شریعت نے حرام کی ہے وہ حرام ہی ہے لوگوں کو اس کی ضرورت پڑے یا نہ پڑے ۔ چیز خریدنے کے لیے نقد قیمت ملے یا نہ ملے۔ اور قسطوں کی بیع حرام بیوع سے ہے ، یہ رفع حرج اور ارادۂ یسر کے قاعدہ ( کہ شریعت میں تنگی نہیں آسانی ہے) کے زمرے میں نہیں آتی ۔ جن کے پاس نقد قیمت موجود ہے اور جن کے پاس موجود نہیں سب پر لازم ہے کہ حلال کو لازم پکڑیں اور حرام سے اجتناب کریں، جو آدمی حلال لینا چاہے وہ حرام سے بچ جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَمَنْ یَّسْتَعِفَّ یُعِفَّہُ اللّٰہُ ، وَمَنْ یَّستَغْنِ یُغْنِنْہُ اللّٰہُ)) (جو پاکدامنی اختیار کرنا چاہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسے پاکدامن بنا دیتا ہے اور جو حرام سے بچنا چاہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسے حرام سے بچا لیتا ہے ۔)1 اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: [وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ إِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ أَمْرِہٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا}[الطلاق:۳] (’’ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے وہ اس کے لیے کوئی نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اُسے اُمید بھی نہیں ہوتی اور جو اللہ پر بھروسہ کر لے تو وہ اُسے کافی ہو جاتا ہے ۔ بے شک اللہ تعالیٰ اپنے کام کو پورا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ لگا رکھا ہے۔‘‘) لہٰذا اللہ تعالیٰ کے یہ فرامین : [وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ} [الحج:۸۷] اور [یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ}[البقرۃ:۱۸۵] (’’اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حرام کردہ چیزوں کو دفعِ حرج اور رفع عسر ( تنگی اُٹھانا اور دور کرنا) کے دعویٰ سے حلال نہیں کرتے۔‘‘) ورنہ لازم آئے گا کہ ہر حرام حلال ہو جائے اور یہ ٹھیک نہیں۔
چھٹی دلیل بھی صحیح نہیں ، کیونکہ اسے صحیح ماننے سے شریعت کی ہر حرام کردہ چیز اس علت اور وجہ سے حلال ٹھہرے گی کہ جی 1 ایسے محسنین کی کمی ہے جو لوگوں کو اپنے مال بطورِ قرض حسنہ دیں ۔ اور یہ علت بھی کمزور ہے۔
ساتویں دلیل سے بھی ’’ قسطوں کی بیع کا جواز‘‘ ثابت نہیں ہوتا ، اس لیے کہ (ا)قسطوں کی بیع ‘ سودی بیع ہے جس میں زائد منافع ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے ہوتا ہے جو کہ شریعت میں سود کہلاتا ہے۔ (ب) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا)) دراصل قسطوں کی بیع میں تھوڑے درہم یا دینار کی زیادہ کے بدلے بیع ( خریدو فروخت) ہوتی ہے اور یہ تو سود کے لیے واضح طور پر حیلہ ہے( یہ مسئلہ ان شاء اللہ تعالیٰ آگے آرہا ہے)
لہٰذا پتہ چلا کہ قسطوں کی بیع سے سود کا راستہ بند نہیں ہوتا بلکہ یہ سود کا بہت بڑا دروازہ خوب کھول دیتی ہے۔
آٹھویں دلیل سے صاحب مقال کا دعویٰ اس لیے ثابت نہیں ہوتا کہ ذکر کردہ دلیل ’’قیمت میں تاخیر کے عوض اضافہ کا جواز‘‘ نہ قرآن سے ثابت ہے نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمکی کسی حدیث سے بلکہ یہ صرف دعویٰ ہے۔ ہاں 1 یہ ضرور ثابت ہے کہ قیمت مؤجل ہونے کی بناء پر نفع لینا( اور اس میں زائد قیمت بھی آگئی) جائز نہیں۔ اور سود کی حرمت کے بہت سارے دلائل اس پر دلالت کرتے ہیں۔
جو لوگ ’’قسطوں کی بیع‘‘ کو اس وجہ سے سودی بیع کہتے ہیں کہ اس میں صرف ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے پیسے زیادہ لیے جاتے ہیں ، اس کا جواب دیتے ہوئے صاحب مضمون کہتے ہیں:
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 بخاری؍کتاب الزکاۃ؍باب لا صدقۃ الا عن ظھر غنا:۱۴۲۸۔ مسلم؍کتاب الزکاۃ؍باب فضل التعفف والصبر:۱۰۵۳
’’ یہ استدلال صحیح نہیں ، اس لیے کہ بیع شروع سے ہی معین قیمت پر ہوئی ہے کہ اتنے عرصے میں ادائیگی ہو گی اور اتنا ریٹ ہے۔ دوسرے ریٹ کی بات ہی نہیں ہوئی۔ اور ایسا جب فریقین کی رضا مندی سے طے ہو جائے تو جائز ہے۔‘‘
جواب: …
اس کے کئی جواب ہیں:
(۱) صاحب مضمون’’پہلے خود ‘‘ قسطوں کی بیع‘‘ کی اہم خصوصیات بیان کر چکے ہیں کہ:
(ا)(۱)سامان( قابل فروخت) فوری دیا جائے گا۔(۲) قیمت مؤجل ہو گی اور قسطوں میں دی جائے گی۔ (۳)قیمت میں اضافہ تاخیر کا عوض ہے۔
(ب) پھر یہ بھی کہہ کر آئے ہیں کہ تیسری بات ( قیمت میں اضافہ تاخیر کی نظیر ہے) میں اختلاف ہے۔
(ج) پھر کہتے ہیں کہ ’’ قیمت میں اضافہ تاخیر کی نظیر ہے۔‘‘ کوجائز قرار دینے والوں کی دلیل یہی ہے کہ قیمت میں اضافہ تاخیر کی نظیر ہے۔
آپ کو یہ معلوم ہو چکا ہے کہ صاحب مضمون نے اپنے ان تینوں اقوال میں ’’قسطوں کی بیع میں ‘‘ قیمت میں اضافہ کو تاخیر اور ادائیگی کا عوض و بدل ٹھہرایا ہے لیکن اب کہہ رہے ہیں کہ :
’’قیمت جو طے ہو رہی ہے وہ سامان ( قابل فروخت) کی پوری قیمت ہے۔‘‘
ان کے پچھلے تین اقوال اور اس قول میں واضح تضاد ہے ، کیونکہ جب قیمت سامان کی پوری قیمت بن رہی ہو تو پھر ’’قیمت میں اضافہ تاخیر کا عوض و بدل ہے ‘‘باقی نہیں رہتا۔ اور جب ’’ قیمت میں اضافہ تاخیر کا عوض و بدل ہو‘‘ سامان فروخت کی قیمت اس کی پوری قیمت نہیں ہو سکتی۔ یہ بالکل واضح بات ہے جسے ذہین اور کند ذہن سبھی جانتے ہیں۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ جب ساری قیمت جو قسطوں میں قابل ادا ہے سامان کی کل قیمت ہے اور ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا تو پھر تو یہ بیع ’’قسطوں کی بیع‘‘ رہتی ہی نہیں۔ (کیونکہ قسطوں کی بیع میں تاخیر ادائیگی کی وجہ سے پیسے زیادہ دینے پڑتے ہیں) اور جب یہ صورت ’’ قسطوں کی بیع ‘‘ والی بنتی ہی نہیں تو صاحب مضمون کا یہ جواب اسے سود کہنے والوں کے لیے جواب نہیں بنتا۔
اگر قسطوں میں ادا ہونے والی رقم سامانِ فروخت کی کل قیمت ہے اور تاخیر ادائیگی کی وجہ سے ریٹ نہیں بڑھایا گیا تو اگر یکبارگی ساری رقم ادا کر دی جائے تو ریٹ کم نہیں ہونا چاہیے جب کہ ایسا نہیں ہوتا۔
’’قیمت( قابل ادا) کو سامان کی مکمل اور پوری قیمت کہنا‘‘ اس کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ ’’شروع سے ایک معین ریٹ ہی طے پایا جائے گا لیکن ابتداء میں ایسا ہو جانے سے وہ بیع صحیح نہیں ہو جاتی 1 دیکھئے:
ایک آدمی دوسرے سے کہتا ہے : میں تجھے یہ ’’درہم‘‘ ایک درہم اور چوتھائی درہم‘‘ کے عوض بیچتا ہوں ( جبکہ قیمت میں دونوں برابر ہوں) یا کہتا ہے: میں تمہیں یہ سودا دو درہم اُدھار میں بیچتا ہوں( جبکہ نقد اس سودے کی قیمت دو درہم سے کم ہو) اور دوسرا آدمی کہہ دے: مجھے یہ بیع اور سودا قبول ہے‘‘ اس سے ’’درہم اور چوتھائی درہم ‘‘ ایک درہم کی پوری قیمت نہیں بنتی ۔ نہ ہی دو درھم سامان کی پوری قیمت بنتے ہیں( بالکل قیمت زیادہ ہے) یہ اضافی ریٹ ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے ہے۔ تو اب یہ بیع اس دلیل سے جائز نہیں ہو جائے گی کہ ’’بیع ابتداء ہی سے معین ریٹ پر ہوئی تو کل قیمت سامان کی پوری قیمت ہی ہے‘‘
شریعت جو ’’نقد درہم کی اُدھار درھم سے بیع ‘‘ کو سود قرار دیتی ہے ’’قسطوں کی بیع ‘‘ بالاولیٰ سود قرار دیتی ہے کیونکہ اس میں تو ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے قیمت زیادہ لی جاتی ہے جبکہ ’’نقد درہم کی اُدھار درھم سے بیع ‘‘ میں بھی زیادہ قیمت نہیں لی جاتی اور پھر بھی سود ٹھہر تا ہے۔ اسی طرح جب شریعت میں ’’نقد گندم کی اُدھار جو سے بیع ‘‘ سود ہے تو قسطوں کی بیع با لأولیٰ سود ہے ۔ لہٰذا واضح ہو گیا کہ قسطوں کی بیع سود کی ایک شکل ہی ہے[وَأَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا[’’اور اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے۔‘‘
حدیث ِ ’’مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ… الخ ‘‘ کے تین معانی:
صاحب مضمون کہتے ہیں: ’’ اس طرح ان ( قسطوں کی بیع کو حرام کہنے والوں) کا اس حدیث: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا)) سے استدلال قسطوں کی بیع جس میں اضافی رقم دینا پڑتی ہے۔ پر منطبق نہیں ہوتا کیونکہ حدیث سے مندرجہ ذیل تین معانی میں سے ایک معنی مراد ہے اور تینوںمیں قسطوں کی بیع شامل نہیں۔
1 ایک بیع میں دو بیعوں سے مراد’’بیع عینہ‘‘ ہے جس کا مطلب ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو کوئی چیز فروخت کرتا ہے اور ادائیگی کا وقت معینہ مدت تک طے ہو جاتا ہے ، پھر وہ چیز خریدنے والے سے نقد رقم پر کم قیمت میں خرید لیتا ہے۔
2 بعض نے کہا ہے : اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی چیز دو مرتبہ فروخت ہوتی ہے جیسے: ایک آدمی ایک مہینہ اُدھار پر کوئی چیز بیچتا ہے ، جب ادائیگی کا وقت آتا ہے ، خریدار کے پاس قیمت موجود نہیں ہوتی ، فروخت کنندہ اس پر اور پیسے چڑھا دیتا ہے ، اسے دوبارہ نئے سرے سے نئی قیمت پر بیچتا ہے اور ادائیگی کی پہلی رقم اس کے ذمہ بدستور قائم رہتی ہے۔
3 بعض کہتے ہیں : حدیث کا معنی یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی کو کوئی چیز فروخت کرے اور ساتھ شرط لگائے کہ خریدار بھی اسے کوئی دوسری چیز فروخت کرے۔
جواب:
میں کہتا ہوں اس کے کئی جواب ہیں:
جواب نمبر ۱:… یہ حدیث: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا))صرف ایک ، دو تین یا چار ، پانچ کو شامل نہیں بلکہ ہر اس بیع کو شامل ہے جس میں دو بیعیں کی جائیں ۔ اور یہ بالکل واضح بات ہے جو کسی اہل علم سے مخفی نہیں ، لہٰذا صاحب مضمون کا یہ کہنا کہ یہ حدیث ’’قسطوں کی بیع ( جس میں اضافی رقم دینا پڑتی ہے) پر منطبق نہیں ہوتی ‘‘ صحیح نہیں، کیونکہ اس بات کی بنیاد اس نظریہ اور فکر پر ہے کہ حدیث صرف مذکورہ تین معانی پر ہی منحصر ہے ، حالانکہ حدیث میں کوئی قصر ہے نہ حصر ، جیسا کہ آپ معلوم کر چکے ہیں۔
جواب نمبر ۲:… صاحب مضمون نے حدیث کو تین معانی میں بند کر کے رکھ دیا ہے ، یہ بات کسی اہل علم سے ثابت نہیں ،ہاں بعض نے اس سے صرف ’’بیع عینہ ‘‘ مراد لی ہے جیسا کہ آگے ان شاء اللہ تعالیٰ آرہا ہے ۔ بلکہ کئی علما نے ’’کوئی چیز نقد کم قیمت پر اور اُدھار زیادہ قیمت پر بیچنے ‘‘ کو ہی ایک بیع میں دو بیعیں قرار دیا ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب جامع ترمذی میں فرماتے ہیں:
((وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَھْلِ الْعِلْمِ قَالُوْا : بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ أَنْ یَّقُوْلَ: أَبِیْعُکَ ھٰذَا الثَّوْبَ بِنَقْدٍ بِعَشْرَۃٍ ، وَبِنَسِیْئَۃٍ بِعِشْرِیْنَ وَلَا یُفَارِقُہٗ عَلیٰ أَحَدِ الْبَیْعَیْنِ فَاِذَا فَارَقَہٗ عَلیٰ أَحَدَھَمَا فَلَا بَأسَ إِذَا کَانَتِ الْعُقْدَۃُ عَلیٰ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا))1
’’ بعض اہل علم نے وضاحت کی ہے کہ ایک بیع میں دو بیعیں یہ ہیں کہ آدمی ایک ہی مجلس میں کہے میں یہ کپڑا آپ کو نقد دس درہم میں دیتا ہوں اور ادھار بیس درہم میں ، لیکن اگر صرف ایک ہی قیمت ( دس درہم) یا( بیس درہم) کہے اور سودا ہو جائے اور بائع و مشتری جدا جدا ہو جائیں تو پھر کوئی حرج نہیں۔‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابواب البیوع عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باب ما جاء فی النھی عن بیعتین فی بیعۃ۔
محدث البانی رحمہ اللہ تعالیٰ ارواء الغلیل میں فرماتے ہیں:
(( وَقَدْ مَضیٰ قَرِیْبًا تَفْسِیْرُہٗ بِمَا ذُکِرَ عَنْ سِمَاکٍ وَکَذَا فَسَّرۃٗ عَبْدُ الْوَھَّابِ بْنُ عَطَائٍ فَقَالَ: یَعْنِیْ یَقُوْلُ : ھُوَ لَکَ بِنَقْدٍ بِعَشْرَۃٍ ، وَبِنَسِیئَۃٍ بِعِشْرِیْنَ ))(۵؍۱۵۱)
’’پیچھے قریب ہی اس کی تفسیر میں سماک کا قول ذکر ہوا ہے ، اسی طرح عبدالوہاب بن عطاء نے اس کی تشریح کرتے ہوئے کہا: ’’ یعنی آدمی کہے: نقد تیرے لیے دس میں ہے اور اُدھار بیس میں۔‘‘
عبدالرزاق رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب ’’مصنف ‘‘ میں لکھتے ہیں:
(( قَالَ الثَّورِیُّ إِذَا قُلْتَ: أَبِیْعُکَ بِالنَّقْدِ بِکَذَا وَبِالنَّسِیْئَۃِ بِکَذَا وَکَذَا فَذَھَبَ بِہِ الْمُشْتَرِیُّ فَھُوَ بِالْخِیَارِ فِی الْبَیْعَیْنِ مَالَمْ یَکُنْ وَقَعَ بَیْعٌ عَلیٰ أَحَدِھِمَا فَإِنْ وَقَعَ الْبَیْعُ ھٰکَذَا فَھٰذَا مَکْرُوْہٌ ، وَھُوَ بَیْعَتَانِ فِیْ بَیْعَۃٍ ، وَھُوَ مَرْدُوْدٌ وَھُوَ الَّذِیْ یُنْھیٰ عَنْہُ ، فَإِذَا وَجَدْتَّ مَتَاعَکَ بِعَیْنِہٖ أَخَذْتَہٗ ، وَاِنْ کَانَ قَد اسْتَھْلَکَ فَلَکَ أَوْکَسُ الْثَمَنَیْنِ ، وَأَبْعَدُ الْأَجْلَیْنِ)) (۸؍۱۳۸۔۱۴۶۳۲)
’’امام ثوری رحمہ اللہ نے کہا: جب آپ کہیں کہ ’’نقد آپ کو اتنے میں دوں گا اور اُدھار اتنے میں ‘‘ کوئی ایک صورت طے ہونے کے بغیر گاہک اگر وہ چیز لے جائے تو اسے اختیار ہے دو قیمتوں میں سے جو مرضی ادا کر دے لیکن اگر اس طرح بیع طے ہو جائے تو ایسی بیع مکروہ ہے اور ایک بیع میں دو بیعیں ہیں جو کہ مردود اور ممنوع ہے ، اگر آپ کو اپنا سامان بعینہ مل جائے تو اسے لے لو اور اگر خراب ہو چکا ہو تو دو قیمتوں میں جو کم ہے وہ لے لیں اور ادائیگی کے دو اوقات میں سے زیادہ تاخیر والا وقت ہے اس وقت وصول کریں گے۔‘‘
(( وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاق: أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیْلُ قَالَ: حَدَّثَنَا سِمَاکُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ابْنِ عَبْدَ اللّٰہِ عَنْ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: لَا تَصْلُحُ الْصَّفْقَتَانِ فِی الصَّفْقَۃِ أَنْ یَّقُوْلَ : ھُوَ بِالنَّسِیْئَۃِ بِکَذَا وَکَذَا ، وَبِالنَّقْدِ بِکَذَا وَکَذَا)) (۸؍۱۳۸)
’’ عبدالرزاق فرماتے ہیں: ہمیں اسرائیل نے خبر دی ، اس نے کہا ، ہمیں سماک بن حرب نے بیان کیا از عبدالرحمن بن عبداللہ کو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک چیز کے دو سودے کرنا کہ ’’ادھار اتنے کی اور نقد اتنے کی ہے‘‘ درست نہیں۔‘‘
امام شوکانی نیل الاوطار میں فرماتے ہیں:
(( قَوْلُہٗ : مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فَسَّرَہٗ سِمَاکٌ بِمَا روَاہُ المُصَنَّفْ عَن أَحْمَدُ عَنْہُ وَقَدْ وَافقَہٗ عَلیٰ مثْل ذٰلِکَ الشَّافِعیُّ ، فَقَال: بِأَنْ یَّقُوْلَ : بِعْتُکَ بِأَلْفٍ نَقْداً أَوْ أَلْفَیْنِ إلیٰ سَنَۃٍ ، فَخُذْ أَیَّھُمَا شِئْتَ أَنْتَ وَشِئْتَ اَنَا ، وَنَقَلَ ابْنُ الرَّفْعَۃَ عنِ الْقَاضِیْ أَنَّ الْمَسْأَلَۃَ مَفْرُوضَۃٌ عَلیٰ أَنَہٗ قَبِل عَلیٰ الْاَبْھَام أَمَّا لَوْ قَالَ قُلْتُ بِأَلْفٍ نَقْداً ، أَوْ بِأَلْفِیْنَ بِالنَّسِیْئَۃِ صَحَّ ذٰلِکَ ، وَقَدْ فَسَّرَ ذٰلِکَ الشَّافِعِیُّ بِتَفْسِیْرٍ آخَرَ ، فَقَالَ: ھُوَ أَنْ یَّقُوْل: بِعْتُکَ ذَالْعَبْدُ بِأَلْفٍ عَلیٰ أَنَّ تَبیْعَنِیْ دَارَکَ بِکَذَا ۔ أَیْ إِذجا وَجَبَ لَکَ عِنْدِیْ وَجَبَ لِیْ عِنْدَکَ وَھٰذَا یَصْلُحُ تَفْسِیْرًا لروَایَۃ الأُخریٰ مِنْ حَدِیْث أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، لَا لِلْأُولیٰ فَإِنَّ قَوْلَہٗ فَلَہُ أَوْ کَسُھُمَا یَدُلُّ عَلیٰ أَنَّہُ بَاعَ الشَّیْئُ الْوَاحِدَ بیْعَتَیْنِ بَیْعَۃٌ بِأَقَلَ وَبَیْعَۃ بِأَکْثَرَ : وَقِیْلَ فِیْ تَفْسِیْرٍ ذٰلِکَ : ھُوَ أَنْ یُّسْلِفَہُ دِیْنَارًا فِیْ قَفِیْز حِنْطَۃٌإلیٰ شَھْرٍ ، فَلَمَّا حِلَّ الْاَجْلُ ، وَطالبہ بالحنطۃ قال: یعنی القَفِیزَ الَّذِیْ لَکَ عَلَیَّ اِلیٰ شَھْرِیْنَ بِقَفِیْزَیْنِ۔ فَصَارَ ذٰلِکَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃِ : لِأَنَ الْبَیْعَ الثَّانِیْ قَدْ دَخَلَ عَلَی الاوّل فیرُدُّ إِلَیْہِ أَوْ کسَھُمَا وَھُوَ الْاَوَّلُ ، کَذَا فِیْ شَرْحِ السُّنَنِ لِاَبْنِ رُسْلَان)) (کتاب البیوع؍باب بیعتین فی بیعۃ:۵؍۲۴۹)
’’حدیث مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ کی تفسیر سماک نے اسی طرح کی ہے جس طرح مصنف نے امام احمد کے واسطے سے سماک سے روایت کیاہے۔ امام شافعی کا قول بھی ہے کہ موافق ہی ہے ، امام شافعی فرماتے ہیں کہ حدیث کا مطلب ہے کہ آدمی مثال کے طور پر کہے : نقد ہزار کی اور ایک سال تک ادائیگی کردو تو دو ہزار کی ، جو آپ چاہتے ہیں وہ لے لیں اور جو میں چاہوں ۔ ابن رفعہ نے قاضی سے نقل کیا ہے کہ اس صور ت میں جب بات مبہم اور غیر واضح ہو لیکن اگر وضاحت ہو جائے اور کہہ دے کہ نقد ہزار کی مجھے منظور ہے یا ادھار دو ہزار کی مجھے قبول ہے تو ایسا کرنا صحیح ہے۔
اس کی وضاحت امام شافعی نے اور طرح بھی کی ہے کہ وہ کہے: یہ غلام میں تمہیں ایک ہزار میں فروخت کرتا ہوں ، بشرطیکہ تو اپنا گھر مجھے اتنی اتنی قیمت پر بیچے۔ یعنی جب غلام تیرا ہو جائے گا تو گھر میرا ہو جائے گا۔
یہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت کی تفسیر تو بن سکتا ہے مگر پہلی روایت کی نہیں کیونکہ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَا ( اس کے لیے کم قیمت لینا جائزہے) کے الفاظ اس بات پر دلالت کررہے ہیں کہ وہ ایک ہی چیز کی دو بیعیں کر رہا ہے ۔ ایک بیع کی قیمت کم ہے جبکہ دوسری کی زیادہ۔
اس کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ ایک آدمی کسی کو ایک دینار اُدھار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مہینے بعد مجھے اس کے بدلے ایک قفیز گندم دے دینا ، وقت آنے پر وہ اس گندم کا مطالبہ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے ، آپ کا جو ایک قفیز میرے ذمہ ہے وہ مجھے بیچ دو اور دو مہینے بعد دو قفیز مجھ سے لے لینا۔
یہ ایک بیع میں دو بیعیں ہیں کیونکہ دوسری بیع پہلی بیع پر داخل ہوئی ہے۔ تو خریدار دو قیمتوں میں سے کم قیمت ہی ادا کرے گا اور وہ پہلی ( ایک قفیز ہی ) ہے شرح السنن لابن رسلان میں اسی طرح ہے ۔ امام شوکانی کی بات ختم ہوئی۔
حدیث کے الفاظ ’’ فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا‘‘ کا مطلب ہے دونوں قیمتوں میں کم درجہ کی قیمت۔
علامہ خطابی فرماتے ہیں:
(( لَا أَعْلَمُ أَحَداً قَالَ بِظَاھِرِ الْحَدِیْثِ ، وَصَحَّحَ الْبَیْعَ بِأَوْکَسِ الثَّمَنِیْنِ إِلاَّ مَا حُکِیَ عَنِ الْاَوْزَاعِیِّ وَھُوَ مَذْھَبٌ فَاسِدٌ)) 1
’’میں کسی کو نہیں جانتا جس نے حدیث کے ظاہر الفاظ کو سامنے رکھ کر ’’دو قیمتوں میں سے کم قیمت والی بیع‘‘ کو صحیح قرار دیا مگر امام اوزاعی اسے صحیح کہتے ہیں اور امام اوزاعی کا یہ نظریہ فاسد ہے۔ انتہی‘‘
یہ تو واضح ہے کہ امام اوزاعی نے جو فرمایا حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہے ؛ کیونکہ ’’ فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا‘‘ کا یہی تقاضا ہے کہ دو قیمتوں میں سے کم قیمت لینا جائز ہے۔
(( قَوْلُہٗ : (أَوِ الرِّبَا)یَعْنِیْ أَوْ یَکُوْنُ قَدْ دَخَلَ ھُوَ وَصَاحِبُہٗ فِی الرِّبَا الْمُحَرَّمِ إِذَا لَمْ یَأْخُذِ الْأَوْکَسَ ، بَلْ أَخذَ الْاَکْثَرَ وَذٰلِکَ ظَاھِرٌ فِی التَّفْسِیْرِ الَّذِیْ ذَکَرَہُ ابْنُ رَسْلَانَ ، وَأَمَّا فِی التَّفْسِیْرِ الَّذِیْ ذَکَرَہُ أَحْمَدُ عَنْ سَمَّاکٍ ، وَذَکَرَہُ الشَّافِعِیْ فَفِیْہِ مُتمَسَّکَ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 تحفۃ الاحوذی؍شرح جامع الترمذی لأبی العلاء المبارکفوری أبواب البیوع؍باب ما جاء فی النھی عن بیعتین فی بیعۃ:۴؍۳۵۹
لِمَنْ قَال: یَحْرُمُ بَیْعُ الشَّیْئِ بِأَکْثَرِ مِنْ سِعْرِ یَوْمِہٖ لِاَجْلِ النَّسأ))1
حدیث کے الفاظ ’’ فلہَ اوْکَسُھُمَا‘‘ یعنی دو قیمتوں میں سے ’’ کم قیمت ‘‘ کی بجائے اگر ’’زیادہ قیمت ‘‘ لے لے تو بائع اور مشتری دونوں حرام سود میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ بات ابن رسلان کی بیان کردہ تفسیر میں واضح ہے۔ رہی وہ تفسیر جو امام احمد نے سماک سے ذکر کی ہے اور امام شافعی نے بھی ذکر کی ہے تو اس سے اس آدمی کے قول کو تقویت ملتی ہے جو کہتا ہے ’’ کسی چیز کو اُدھار کی وجہ سے اس کی موجودہ قیمت سے زیادہ پر بیچنا حرام ہے۔‘‘
ہماری ان نقل کردہ عبارات سے معلوم ہوا کہ بیع کی یہ شکل ’’نقددس کی ، اُدھار پندرہ کی ‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا)) میں شامل ہے۔ اور بلا شبہ ’’قسطوں کی بیع جس میں تاخیر ادائیگی کی وجہ سے قیمت زیادہ کی جاتی ہے ‘‘ اسی سے ہے ۔ اور صاحب مضمون ان صورتوں میں جن پر حدیث منطبق ہوتی ہے اس صور ت کا ذکر چھوڑ گئے ہیں۔
پھر ان کی یہ بات ’’ یہ حدیث قسطوں والی بیع پر منطبق نہیں ہوتی کیونکہ حدیث کا ان تینوں معانی جن میں قسطوں والی بیع جس میں قیمت بڑھائی جاتی ہے شامل نہیں ، میں سے ہی کوئی معنی مراد ہے ‘‘ فقہ و انصاف سے بالکل عاری ہے۔
جواب نمبر ۳:… آپ یہ دیکھ چکے ہیں کہ صاحب مضمون نے کہا: بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی چیز اس شرط پر فروخت کرے کہ خریدار اسے کوئی دوسری چیز فروخت کرے۔
حالانکہ پہلے یہ کہہ کر آئے ہیں کہ : حدیث سے تین معانی میں سے ہی کوئی ایک معنی مراد ہے ۔ تو اب لکھ رہے ہیں کہ یہ صورت بھی حدیث ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃفَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا)) کے تحت داخل ہے۔
پہلے امام شافعی کی تفسیر جو امام شوکانی نے نقل کی ہے بھی جان چکے ہیں کہ : میں تمہیں یہ غلام ایک ہزار کا اس شرط پر فروخت کرتا ہوں کہ تم مجھے اپنا گھر اتنے میں فروخت کرو۔ پھر امام شوکانی نے فرمایا کہ یہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت ((نَھَی النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ)) (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیعوں سے منع فرمایا)کی تفسیر بنتی ہے پہلی روایت کی نہیں۔ کیونکہ یہ الفاظ ’’ فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا‘‘اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس نے ایک چیز کی دو بیعیں کیں ۔ ایک کم قیمت پر ، دوسری زیادہ پر۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 تحفۃ الاحوذی؍شرح جامع الترمذی لأبی العلاء المبارکفوری أبواب البیوع؍باب ما جاء فی النھی عن بیعتین فی بیعۃ:۴؍۳۵۹
تو تین صورتوں میں سے آخری تیسری صورت جس پر حدیث ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا)) صاحب مضمون کے ہاں منطبق ہوتی ہے لیکن یہ حدیث ان الفاظ سے اس صورت پر منطبق نہیں ہوتی۔
جواب نمبر ۴:… بیع عینہ … ایک شخص کا دوسرے سے کوئی سامان اُدھار خریدنا، پھر فروخت کنندہ کا خریدار سے نقداً اُسے کم قیمت پر لینا ۔ بھی ان صورتوں سے نہیں جن پر حدیث ’’ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا ‘‘ صادق آتی ہے کیونکہ حدیث میں ربا (سود)اضافی قیمت والی بیع کو کہا گیا ہے ، کم قیمت والی بیع کو نہیں ، جبکہ بیع عینہ میں معاملہ اس کے برعکس ہے ، اس لیے کہ اس میں کم قیمت پر خریدنا حرام ہے ، زیادہ قیمت پر خریدنا حرام نہیں۔ اور اس لیے بھی کہ حدیث اس صورت کا ذکر کر رہی ہے جس میں ایک ہی بائع چیز کی دو بیعیں کرتا ہے ایک کم قیمت والی اور دوسری زیادہ قیمت والی ، جبکہ بیع عینہ میں ایسی صورت نہیں۔
جواب نمبر ۵:… جب دو صورتیں ’’ بیع عینہ اور بیع بشرط بیع ‘‘ صاحب مضمون کی حدیث((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا)) کے مصداق میں ذکر کردہ تین صورتوں سے نکل گئیں تو تین میں سے ایک صورت باقی رہ گئی جس کو حدیث شامل ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی کوکوئی چیز ایک مہینہ کے اُدھار پر فروخت کرتا ہے ، جب ادائیگی کا وقت آتا ہے خریدار کے پاس قیمت موجود نہیں ہوتی تو بائع مشتری پر مزید بوجھ اس طرح ڈالتا ہے کہ وہی سامان اُسے دوبارہ نئی قیمت اور نئے اُدھار پر فروخت کرتا ہے جبکہ پہلی قیمت بدستور اُس پر واجب الادا رہتی ہے۔ تو اس صورت میں ’’ دوسری بیع ‘‘ صاحب مضمون کے نزدیک بھی سود ہے۔ اور جو دلیل اس دوسری بیع کو سود ٹھہراتی ہے وہ بعینہ ان دو بیعوں میں سے پہلی بیع کو سود ٹھہراتی ہے جب اس میں نقد کی قیمت سے زیادہ قیمت ہو۔
اسی طرح بعینہ یہ دلیل قسطوں کی بیع کو سود ٹھہراتی ہے کیونکہ قسطوں کی بیع دو بیعوں میں سے پہلی بیع ہے ، جب اس میں نقد کی قیمت سے زیادہ قیمت ہو ۔ یہ صورت بقیہ ایک صورت جیسی ہی ہے جو حدیث کے منطوق میں آتی ہے۔ ہاں اتنا فرق ہے کہ قسطوں کی بیع میں ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے قیمت قسطوں کی شکل میں ادا کرنا ہوتی ہے اور حکماً دونوں صورتیں ایک ہی ہیں۔اس فرق سے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تو کیا وجہ ہے کہ صاحب مضمون دوسری نئی بیع کو تو حرام اور سود قرار دیتے ہیں اور پہلی بیع خواہ نقد قیمت سے مہنگی ہو اسی طرح قسطوں کی بیع کو سود قرار نہیں دیتے ہیں؟
اگر وہ کہتے ہیں: قسطوں کی بیع میں ساری قیمت سامان کے مماثل اور اس کی پوری قیمت ہے اور پہلی بیع دوسری نئی بیع کے علاوہ ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ محض دعویٰ ہے ، حالانکہ صورت مذکورہ میں ’’ قسطوں کی بیع پہلی بیع اور دوسری نئی بیع کے درمیان کوئی فرق نہیں ، کیونکہ دوسری نئی بیع میں ساری قیمت جب سامان فروخت کی مماثل نہیں۔ کیونکہ تاخیر ادائیگی کی وجہ سے قیمت بڑھائی جا رہی ہے ۔ تو قسطوں کی بیع اور پہلی بیع میں بھی تمام قیمت سامان فروخت کے مماثل نہیں کیونکہ ان میں بھی زیادہ قیمت لینے کا دارو مدار تاخیر ادائیگی پر ہے۔
چند فوائد
فائدہ اولیٰ:
اکثر علما نے ایک بیع میں دو بیعوں کی ممانعت کی وجہ معاملہ کے مبہم اور مجہول ہونے کو ٹھہرایا ہے ۔ یہ بات ان اقوال سے ظاہر ہے جو شوکانی نے نیل الاوطار میں اور دوسرے علماء نے اپنی کتابوں میں ذکر کیے ہیں۔ ’’ایک بیع میں دو بیعوں ‘‘ کی بعض صورتوں میں یہ وجہ ہو سکتی ہے لیکن اس حدیث : ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا)) میں منع کی علت یہ وجہ نہیں بلکہ اس میں ممانعت کی وجہ اس کا سود ہونا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت کی ہے۔
فائدہ ثانیہ:
بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ایک بیع میں دو بیعوں کے منع کی علت کا وہ احتمال ہو سکتا ہے جو متنازع فیہ مسئلہ سے خارج ہے ، جس طرح ابن رسلان کا قول پیچھے گزرا ہے کہ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اس صورت میں واقع ہونے والی بیع ’’ نقد اتنے کی اور اُدھار اتنے کی ‘‘ کو منع کہہ سکتے ہیں لیکن اگر شروع ہی میں بات کرے کہ ’’ اُدھار اتنے کی دوں گا ‘‘ ( اور اس کی قیمت اس روز کے ریٹ سے زیادہ ہو) تو ایسی بیع جائز ہے، ویسے اس حدیث کا تمسک کرنے والے ( دلیل پکڑنے والے) اس صورت سے منع کرتے ہیں حالانکہ حدیث میں یہ معنی موجودنہیں ،تودلیل دعویٰ سے أخص ہے۔ ( انتہیٰ)
میں کہتا ہوں:
۱۔ اس کا یہ قول ایک بیع میں دو بیعوں کے منع کی علت کا وہ احتمال ہو سکتا ہے متنازع فیہ مسئلہ …ا گر تسلیم کر لیا جائے تو بھی متنازع فیہ مسئلہ پر حدیث سے کیے گئے استدلال میں کوئی خرابی لازم نہیں آتی کیونکہ حدیث عام ہے اور وہ ابن رسلان کی ذکر کردہ صورت اور متازع فیہ صورت دونوں کو شامل ہے اور حدیث کے عموم سے متازع فیہ مسئلہ کو خاص اور مستثنیٰ کرنے کی کوئی دلیل موجود نہیں۔
یہ بات بھی ہے کہ ایک قفیز گندم کی دو قفیز کے ساتھ بیع منع اور سود ہے ، خواہ ایک دو دن یا مہینہ دو مہینہ تک کی مدت حائل نہ ہو بلکہ تاخیر ادائیگی کا اس میں دخل تک نہ ہو اور قیمت کی زیادتی بھی تاخیر کی وجہ سے نہ ہو ۔ تو ابن رسلان کی ذکر کردہ صورت میں دوسری بیع منع اور سود بنتی ہے خواہ وہ شروع سے ہی ایسا طے کیا جا رہا ہو۔ ہماری اس بات سے واضح ہو گیا کہ ابن رسلان کی ذکر کردہ صورت کا اس حدیث کی تشریح میں داخل ہونا ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا))صحیح نہیں۔لہٰذا ان کا یہ کہنا کہ ایک بیع میں دو بیعوں کے منع کی علت کا وہ احتمال ہو سکتا ہے جو متنازع فیہ مسئلہ کے علاوہ ہے۔ درست نہیں ہے ، کیونکہ حدیث میں ابن رسلان کی تفسیر والا احتمال بالکل نہیں پایا جاتا ۔ ابن رسلان کا احتمال پیچھے حدیث کی تفسیر میں میں نے صرف بطورِ نقل و حکایت ذکر کیا ہے۔
ہماری اس ساری بات چیت سے واضح ہو گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث : ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا))کا مصداق ایک صورت ہو یا کئی صورتیں ، انہیں ان چیزوں پر مشتمل ہونا چاہیے:
(۱) وہ صورت ایسی ہو کہ اس میں ایک چیز کی دو بیعیں ہوں۔ (۲)وہ دونوں بیعیں ایک بیع میں ہوں ۔ (۳)ان دونوں میں سے ایک بیع کم قیمت پر ہو۔ (۴)ان میں سے ایک کم قیمت والی بیع حلال ہو ، سود نہ ہو۔ (۵)دونوں میں سے ایک بیع زیادہ قیمت والی ہو۔ (۶) دونوں سے زیادہ قیمت والی بیع حرام اور سود ہو۔ (۷)دونوں بیعوں میں بائع ( بیچنے والا) ایک ہو۔ (۸)دونوں میں بیعوں میں سے اکثر اور زیادہ قیمت والی بیع کی حرمت کا سبب سود ہو۔ (۹)دونوں میں سے جس چیز کو فروخت کیا جا رہا ہو وہ ایک ہی چیز ہو۔ (۱۰)ایسی بیع کی حرمت ، جس کا ذکر کیا جا رہا ہے ، اس میں مندرجہ بالا نو چیزیں جمع ہوں۔
ابن رسلان کی ذکر کردہ صورت میں بائع ( فروخت کنندہ ) بدل گیا ہے ، کیونکہ پہلی بیع میں جو بائع ہے ، دوسری بیع میں وہ مشتری ( خریدار ) ہوتا ہے ۔ اور پہلی بیع میں جو مشتری ہوتا ہے ، دوسری بیع میں وہ بائع بنتا ہے ۔ لہٰذا واضح ہو گیا کہ ابن رسلان نے جو صورت ذکر کی ہے وہ ان صورتوں سے نہیں جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث : ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا))صادق آتی ہے ۔
بائع جب شروع سے صرف یہی کہے کہ ’’ادھار اتنے کی ‘‘ اور یہ نہ کہے کہ ’’نقد اتنے کی ‘‘ اور ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے قیمت زیادہ لگائے تو تحقیقاً تو یہ ایک بیع ہے اور تقدیراً یہ دو بیعیں ہیں ، اس لیے کہ وہ زیادہ پیسے ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے لے رہا ہے ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃفَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا))دو بیعوں کو مشتمل ہے ، خواہ وہ حقیقی ہوں یا ان میں سے ایک حقیقی ہو۔اور دوسری مخفی اور تقدیری۔ تو دلیل دعویٰ سے اخص نہیں۔
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اگر شروع سے ہی کہا جائے کہ ’’ اُدھار اتنے کی ‘‘ اور اُدھار کی وجہ سے پیسے بھی زیادہ لگا لے ، تو یہ حدیث کے منطوق میں داخل نہیں ہوتا لیکن ہم کہتے ہیں : ’’ حدیث کے مفہوم میں یہ چیز داخل ہے ، کیونکہ دوسری بیع یعنی ’’اُدھار اتنے کی ‘ اور ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے قیمت بھی زیادہ لگا لے تو یہ سودی بیع ہے ( جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے) خواہ ’’نقد اتنے کی ‘‘ کہہ کر کہے اور خواہ اس کے بغیر صرف یہی کہے کہ ’’ اُدھار اتنے کی ‘‘ مفہوم سے جو بات سمجھ میں آتی ہے اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : [وَلَا تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ} اور انہیں ( والدین کو) اُف نہ کہو۔‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : ((لَا یَبُوْلَنَّ أَحَدُکُمْ فِی الْمَائِ الدَّائِمِ))1( ’’تم میں سے ہر گز کوئی کھڑے پانی میں پیشاب نہ کرے۔‘‘)اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ جب والدین کو اُف کہنا حرام ہے تو جوتے کے ساتھ مارنابھی حرام ہے۔اور کھڑے پانی میں پیشاب کرنا حرام ہے تو پاخانہ کرنا بھی حرام ہے۔ تو کیا یہ کہا جائے گا کہ آیت اور حدیث میں تو یہ بات نہیں آئی کہ والدین کو جوتے کے ساتھ مارنا حرام ہے ، اور کھڑے پانی میں پاخانہ کرنا حرام ہے ، اس لیے کہ دلیل دعویٰ سے اخص ہے؟ ’’ نہیں ہر گز نہیں‘‘ کیونکہ استدلال مفہوم سے لیا گیا ہے اور یہ صحیح استدلال ہے ، اس طرح جو استدلال ہم کر رہے ہیں وہ بھی مفہوم سے ہی سمجھ آرہا ہے ، لہٰذا ان کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ ’’ حدیث اس پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ دلیل دعویٰ سے اخص ہے۔‘‘
ان کا استدلال ’’علت کے ساتھ استدلال کرنے کی قبیل سے ہے کیونکہ یہ صورت کہ ’’ میں نقد تمہیں یہ چیزدس درہم کی دیتا ہوں اور یہی چیز اُدھار پندرہ درہم کی دیتا ہوں ۔‘‘دوسری بیع کی حرمت کی علت ’’سود‘‘ کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں۔ اور اگر کوئی آدمی کوئی چیز اُدھار اس وجہ سے موجودہ ریٹ سے زیادہ پر بیچتا ہے کہ پیسے تاخیر سے ملنے ہیں تو شروع سے ہی صرف اُدھار کی وجہ سے چیز کو زیادہ قیمت پر بیچنا سود اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قسطوں کی بیع میں نقد قیمت سے زیادہ لینا اسی قبیل سے ہے تو پھر قسطوں کی بیع کیسے جائز ہوئی جبکہ وہ سود پر مشتمل ہے؟
فائدہ ثالثہ:
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا))ضعیف اور شاذ ہے لہٰذا اس سے حجت پکڑنا اور استدلال کرنا صحیح نہیں۔‘‘ لیکن ان کی یہ بات درست نہیں ، اس لیے کہ حدیث حسن اور صحیح ہے ، نہ ضعیف ہے ، نہ شاذ اور نہ معلل ، لہٰذا اس سے حجت پکڑنا اور استدلال کرنا درست ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح مسلم؍کتاب الطہارۃ؍باب النھی عن البول فی الماء الراقد: ۲۸۲
محدث البانی رحمہ اللہ تعالیٰ إرواء الغلیل میں فرماتے ہیں:
((۷۔۱۳قَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ ( صَفْقَتَان فِیْ صَفْقَۃٍ رِبًا) صحیح … الخ))
ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ایک چیز کے دو سودے کرنا سود ہے۔‘‘
البانی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح اور اس کے شواہد ابو ہریرہ ، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عمرورضوان اللہ علیھم اجمعین کی حدیث سے ملتے ہیں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث : ((عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍ و عَنْ أبِیْ سَلَمَۃعَنْ أبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ: نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃ))(النسائی:۲؍۲۷۷، الترمذی: ۱؍۲۳۲، ابن الجارود:۶۰۰،ابن حبان:۱۱۰۹،البیہقی : ۵؍۳۴۳، أحمد: ۲؍۴۳۲، ۴۷۵، ۵۳)امام ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ میں کہتا ہوں ، اس کی سند حسن ہے۔ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا))(مصنف ابن ابی شیبۃ:۷؍۱۹۲،۲، ابو داؤد:۳۴۶۰، ابن حبان: ۱۱۱۰، الحاکم:۲؍۴۵، البیہقی:۵؍۳۴۳) امام حاکم نے کہا: مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ، ابن حزم نے بھی المحلی ( ۹؍۱۶) میں اسے صحیح کہا ، اسی طرح عبدالحق نے اپنی کتاب ’’ الاحکام‘‘ میں اس حدیث کو ( پہلے الفاظ کے ساتھ) صحیح کہا۔ میں کہتا ہوں یہ صرف ’’حسن ‘‘ ہے کیونکہ محمد بن عمرو کے حافظے میں تھوڑا سا کلام ہے۔ امام بخاری نے باقی راویوں کے ساتھ ملا کر اس سے روایت کی ہے ، اور امام مسلم نے متابعت میں۔ حافظ ابن حجرتقریب التہذیب میں فرماتے ہیں: صَدُوْقٌ لَہٗ أَوْھَامٌ ( صدوق ہے اور اسے بعض دفعہ وہم بھی ہوئے ہیں) البانی رحمہ اللہ کا کلام ختم ہوا۔
فائدہ رابعہ:
بعض کہتے ہیں حدیث تو صحیح ہے لیکن منسوخ ہے ۔ لیکن ان کی یہ بات محض دعویٰ ہے ، قرآن و حدیث سے اس کے نسخ کی کوئی دلیل نہیں ملتی اور منسوخ جیسے مسائل صرف دعوی کرنے سے ثابت نہیں ہوتے خواہ بڑے بڑے علماء ہی اس کا دعویٰ کریں۔
صاحب مضمون لکھتے ہیں: ’’اسی طرح ان کا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول ((إِذَا سْتَقَمْتَ أَیْ قَوَّمْتُ السَلْعَۃبِنَقْدٍ ، ثُمَّ بَعْتَ بِنَقْدٍ فَلَا بَاْسٌ ، وَإِذَا اسْتَقَمْتَ بِنَقْدٍ ثُمَّ بِعْتَ بِنَسِیْئَۃٍ فَتِلْکَ دَرَاھِمٌ بِدَارِھِمٍ)) (جب تو چیز کی قیمت نقد لائے پھر نقد بیچ دے تو کوئی حرج نہیں ، اور جب نقد کی قیمت لگائے اور اُدھار بیچے تو یہ درہموں کی درہموں سے بیع ہے)جو جائز نہیں)‘‘سے حجت پکڑنا صحیح نہیں اس لیے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول اتنے ہی درجہ کے ایک دوسرے قول کے معارض اور برعکس ہے ۔ چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ جائز ہے جب فریقین جدا ہونے سے پہلے ایسی بیع پر متفق ہو جائیں۔ اور پھر عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے بھی اس کا جواز مروی ہے۔ انتہی۔
میں کہتا ہوں:
ہم ایک چیز کے ’’نقد ایک قیمت پر اور اُدھار اس سے زیادہ قیمت پر بیچنے کو ، اسی طرح قسطوں کی بیع کو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول یا دوسری موقوف اور مقطوع روایات کی بناء پر حرام نہیں سمجھتے ، ہم نے تو اپنے اس دعویٰ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مرفوع ، حسن اور صحیح حدیث سے ثابت کیا ہے ، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ ابن عباس اور دوسرے صحابہ کرامرضوان اللہ علیھم اجمعین کا قول تو ہم صرف تمہیں یہ بتانے کے لیے ذکر کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کیا اور اس پر فتویٰ بھی دیا۔
صاحب مضمون نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول سے کیے گئے استدلال کو اس دلیل سے غیرصحیح کہا ہے کہ وہ اتنے ہی درجے کے دوسرے اقوال سے معارض ہے اور ٹکراتا ہے۔ صاحب مضمون کی یہ دلیل بڑی عجیب و غریب ہے ۔ کیونکہ کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ تم جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کا جواز ثابت کر رہے ہو یہ صحیح نہیں اس لیے کہ ابن عباس کا وہ قول جو جواز والا ہے ان کے دوسرے عدم جواز والے قول ’’ إِذ استقمت بنقد ثم بعت ‘‘ کے معارض ہے؟ پھر ابن مسعود کے قول: ’’الصفقتان فی صفقۃ ربا‘‘ کے بھی معارض ہے؟
پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کے جواز کا قول مروی ہے وہ ان سے ثابت ہی نہیں ، چنانچہ محدث البانی رحمہ اللہ تعالیٰ إرواہ الغلیل میں لکھتے ہیں:
((أَخرج ابْنُ أبِیْ شَیْبَۃ فِی الْبَابِ عَنْ أَشْعث عَنْ عِکْرَمَۃ عِن ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَا بَأسَ أَن یَّقُوْلَ لِلسَّلْعَۃھِیَ بِنَقْدٍ بِکَذَا ، وَبِنَسِیْئَۃبِکَذَا ، وَلٰکِنْ لَا یَفْتَرِقَا إِلاَّ عَنْ رِضًی ، قْلْتُ: وَھٰذَا إِسْنَادٌ ضَعِیْفٌ مِنْ أَجْلِ أَشْعَثُ ھٰذَا ، وَھُوَ ابْنُ سِوَارٍ الْکِنْدِیُّ ، وَھُوَ ضَعِیْفٌ کَمَا فِی التَّقْرِیْبِ ، وَإِنَّمَا أَخْرَجَ لَہُ مُسْلِمٌ مُتَابَعَۃً)) (۵؍۱۵۲)
’’ ابن ابی شیبہ نے اس باب میں اشعث از عکرمہ از ابن عباس روایت کی ہے ، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سامان کے لیے یہ کہنا کہ نقد اتنے کااور اُدھار اتنے کا ( سودا کر کے ) دونوں ( بائع اور مشتری) اگر رضا مندی سے جدا ہو جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔‘‘ میں کہتا ہوں : اشعث بن سوار کندی کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے کیونکہ وہ ضعیف ہے۔ جیسا کہ تقریب میں ہے ، امام مسلم نے ان کی احادیث متابعت کے طور پر روایت کی ہیں۔‘‘انتہی
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہسے جواز کی روایت ہے اگر صاحب مضمون کا اشارہ سنن أبی داؤد کی مندرجہ ذیل روایت کی طرف ہے :
(( أَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم أَمَرَہٗ أَنْ یُّجَھِّزَ جَیْشًا فَنَفِدَتِ الْاِبِلُ فَأَمَرَہٗ أَنْ یَأْخُذَ عَلیٰ قَلَائِصِ الصَّدَقَۃِ ، فَکَانَ یَأْخُذُ الْبَعِیْرَ بِالْبَعِیْرَیْنِ إِلیٰ اِبِلِ الصَّدَقَۃ)) (مشکوٰۃ المصابیح بتحقیق الألبانی :۲؍۸۵۸)
’’عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے انہیں ایک لشکر کی تیاری کا حکم دیا ، اونٹ کم پڑ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: صدقے کی اونٹنیاں آنے تک اُدھار لے لو ، چنانچہ وہ صدقے کے اونٹ آنے تک دو اونٹوں کے بدلے ایک اونٹ لیتے تھے ( یعنی جس سے اُدھار اُونٹ لیتے اسے کہتے کہ جب صدقے کے اونٹ آئیں گے تو ہم تمہیں ایک کی بجائے دو اونٹ دیں گے)‘‘
تو اس روایت کے بارے میں محدث البانی کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح بتحقیق الألبانی :۲؍۸۵۸)
پھر سمرہ بن جند ب رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے جو کہ ترمذی ، ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ ، دارمی ، أحمد ، ابو یعلیٰ اور المختارۃ للضیاء میں ہے : ((أَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلمنَھیٰ عَنْ بَیْعِ الْحَیَوَانِ نَسِیْئَۃ)) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حیوان کی حیوان کے ساتھ اُدھار بیع سے منع فرمایا۔‘‘
ترمذی اور ابن الجارود نے اسے صحیح کہا جیسا کہ ’’ تنقیح الرواۃ فی تخریج أحادیث المشکاۃ‘‘ میں ہے ۔ صاحب تنقیح فرماتے ہیں: عبداللہ بن أحمد نے اسی طرح جابر بن سمر رضی اللہ عنہ کی حدیث روایت کی ہے ۔ انتہی
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ’’ موقوف ‘‘ ہے اور موقوف روایت حجت نہیں ہوتی ۔ خصوصاً جب وہ ایک دوسری موقوف روایت کے معارض ہو جیسے یہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے قول:’’ إِذ استقمت بنقد‘‘ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول: ’’الصفقتان فی صفقہ رِبا‘‘ کے معارض ہے بلکہ مرفوع حدیث: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃفَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا))کے بھی مخالف ہے۔
پھر صاحب مضمون کے اپنے طریقے اور منہج کے مطابق بھی یہ دلیل صحیح نہیں بنتی کیونکہ وہ اس کے مثل سے معارض ہے ، چنانچہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ :((نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ صَفْقَتَیْنِ فِیْ صَفْقَۃٍ)) (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سودے میں دوسودے کرنے سے منع فرمایا) جیسا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے انہوں نے فرمایا:(( اَلصَّفْقَتَانِ فِی صَفْقَۃٍ)) ’’ایک سودے میں دو سودے کرنا سود ہے۔‘‘
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: (( أَنَّـہٗ نَھٰی عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ وَاحِدَۃٍ ، وَعَٰنْ شَفٍّ مَالَمْ یَضْمَنْ وَعَنْ بَیْعٍ وَسَلَفٍ ))
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ، نفع اور فائدہ لینے سے منع فرمایا جب تک ضامن نہ بن جائے اور بیع و سلف سے منع فرمایا۔
صاحب شرح السنہ فرماتے ہیں: ایوب از عمرو بن شعیب از أبیہ از جدہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَا یَحِلُّ سَلَفٌ وَبَیْعٌ وَلَا شَرْطَان فِیْ بَیْعٍ وَلَا رِبْحُ مَالَمْ یَضْمَنْ ، وَلَا بَیْعُ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ )) ’’سلف و بیع جائز نہیں ، ایک بیع میں دو شرطیں جائز نہیں ، ایسی چیز کا منافع لینا جائز نہیں جس کا ابھی ضامن نہیں بنا اور نہ ایسی چیز کی بیع جائز ہے جو تیرے پاس موجود نہیں۔‘‘
پھر اس کے بعد صاحب شرح السنہ لکھتے ہیں کہ:(( وَلَا شَرْطَانِ فِیْ بَیْعٍ )) سے مراد یہ ہے کہ کہے:’’ میں تمہیں یہ غلام نقد ہزار کا دیتا ہوں اور اُدھاردو ہزار کا ‘‘ تو یہ ایک بیع میں دو بیع ہی ہیں ۔انتہی
محدث البانی إرواہ الغلیل میں فرماتے ہیں: عبداللہ بن عمرو کی حدیث عمرو بن شعیب از أبیہ از جدہ کی روایت سے مرفوعاً مروی ہے جس کا بیان ایک حدیث سے پہلے گزر چکا ہے ۔ اس کے الفاظ ابو ہریرہ کی پہلی حدیث والے ہی ہیں: (( نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃ)) عبداللہ بن عمرو کی یہ حدیث ابن خزیمہ اور بیہقی میں موجود ہے اور امام أحمد اس حدیث کے ضمن میں اسے لائے ہیں جو پہلے گزر چکی ہے ۔ بعض نے اسے: ((وَلَا شَرْطَانِ فِیْ بَیْعَۃٍ )) (ایک بیع میں دو شرطیں جائز نہیں) کے الفاظ سے روایت کیا ہے ۔ ظاہراً یہی معلوم ہوتا ہے کہ دونوں الفاظ کا معنی ایک ہی ہے کیونکہ دونوں الفاظ عمرو بن شعیب کی سند سے مروی ہیں بعض رواۃ نے پہلے الفاظ روایت کیے ہیں اور بعض نے دوسرے۔ پھر غریب الحدیث (۱؍۱۸) میں ابن قتیبہ کا قول بھی اس کی تائید کرتا ہے وہ فرماتے ہیں: ’’ممنوع بیوع سے ’’شرطان فی بیع ‘‘ ( ایک بیع میں دو شرطیں)بھی ہے ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی دو مہینوں کے لیے دو دینار پر ایک چیز خریدتا ہے اور اگر تین مہینوں کے لیے خریدے تو تین دینار کی خریدتا ہے ، یہ ایک ’’بیع میں دو بیع ‘‘ کے معنی میں ہے ۔‘‘ سماک سے مذکور اس کی تفسیر قریب ہی گزری ہے ، اسی طرح عبدالوھاب بن عطاء اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں یعنی کہے:’’ نقد یہ تیرے لیے دس کی ہے اور اُدھار بیس کی ‘‘ انتہی(۵؍۱۵۱) اس کی تائید بغوی کی اس حدیث :(( وَلَا شَرْطَانِ فِیْ بَیْعٍ)) کی تفسیر سے بھی ہوتی ہے جسے ہم پہلے نقل کر آئے ہیں ، انہوں نے اس کی تفسیر میں فرمایا ہے:(( فَمَعْنَاہُ مَعْنَی الْبَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ )) کہ اس کا معنی ایک بیع میں دو بیع کرنا ہی ہے۔
صاحب تہذیب السنن (رَحِمَہُ اللّٰہُ ذُوالْمِنَنِ) بیع عینہ کی حرمت کے دلائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: چھٹی دلیل ابو داؤد میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہکی حدیث ہے ، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃفَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا )) علماء کے اس کی تفسیر میں دو قول ہیں:
پہلا قول یہ ہے کہ کہے: نقد( یہ چیز) تمہیں دس کی ، یا اُدھار بیس کی دیتا ہوں۔ یہی بات احمد نے سماک سے روایت کی ہے۔ چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہوالی حدیث : ((نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ صَفْقَتَیْنِ فِیْ صَفْقَۃٍ)) کی تفسیر میں سماک فرماتے ہیں: ’’ آدمی ایک چیز بیچتا ہے تو کہتا ہے : اُدھار اتنے کی بیچنا مجھے منظور ہے اور نقد اتنے کی ‘‘ لیکن یہ تفسیر ضعیف ہے کیونکہ اس صورت میں رِبا ( سود) نہیں بنتا اور نہ ہی دو سودے بنتے ہیں بلکہ یہ دو قیمتوں میں سے ایک کے ساتھ ایک ہی سودا ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ کہے: میں یہ چیز تمہیں ایک سال کے اُدھار پر ایک سو کی اس شرط پر فروخت کرتا ہوں کہ اسے تجھ سے ابھی اسی (۸۰)کی خریدوں گا۔ بس حدیث کا یہی معنی ہے ، کوئی اور معنی نہیں ، اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول :((فَلَہٗ أَوْکَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا)) کے بھی مطابق ہے۔کیونکہ یا تووہ زائد قیمت لے گا جو کہ سود ہے یا پہلی قیمت لے جو کہ کم ہے۔ یہ صورت ایک سودے میں دو سودے والی بنتی ہے ، کیونکہ اس نے نقد و اُدھار کے دونوں سودوں کو ایک سودے اور بیع میں جمع کر دیا ہے اور وہ فوری اور نقد تھوڑے درہم دے کر تاخیر سے زیادہ درہم لینے چاہتا ہے حالانکہ وہ اپنے اصل مال جو کہ دو قیمتوں سے کم قیمت ہے ، کا مستحق ہے لیکن اگر وہ زائد ہی لے تو اس نے سود لیا۔انتہی(۵؍۱۰۵۔۱۰۶)
اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسری صورت میں اسی ( ۸۰) کی سو کے ساتھ بیع کی گئی اور یہ بیع سود ہے اور اسی طرح اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پہلی صورت میں دس کو بیس کے ساتھ بیچا گیا ، اور یہ بیع بھی سود ہے۔ تو پہلی صورت کو چھوڑ کر صرف دوسری صورت کو سود بنانا تحکم اور سینہ زوری کے علاوہ کچھ نہیں۔
پہلے ہم بیان کر آئے ہیں کہ جب دس نقدکی دس اُدھار سے بیع سود ہے تو دس نقد کی بیس اُدھار سے بیع بالاولیٰ سود ہے ، رہا سامان فروخت1 تو جس طرح وہ دوسری صورت میں حیلہ ہے اُسی طرح پہلی صورت میں بھی وہ حیلہ ہی ہے۔
پھر پہلی صورت میں اگر وہ دو قیمتوں میں سے ایک قیمت کے ساتھ ایک ہی سود اہے تودوسری صورت میں بھی دو قیمتوں میں سے ایک قیمت کے ساتھ ہی سود اہے ، اور اگر دوسری صورت میں ایک سودے میں دو سودے اس لیے بنتے ہیں کہ یہ صورت نقد اور اُدھار کے دونوں سودوں کو ایک سودے اور ایک بیع میں جمع کرتی ہے اور مالک تھوڑے درہموں کی بجائے زیادہ درہم لینا چاہتا ہے تو پہلی صورت میں بھی ایک سودے میں دو سودے بنتے ہیں کیونکہ یہ صورت بھی نقد اور اُدھار کے دونوں سودوں کو ایک سودے اور ایک بیع میں جمع کرتی ہے اور اس کا مالک بھی تھوڑے درھموں کی بجائے زیادہ درھم لینا چاہتا ہے… الخ
علاوہ ازیں صاحب تہذیب السنن کے قول کہ ’’ یہ دو قیمتوں میں سے ایک کے ساتھ ایک ہی سودا ہے ‘‘ اس کی بنیاد پہلی تفسیر وارد مثال ((بَعْثُکَ بِعَشْرَۃٍ نَقْدًا أَوْ عِشْرِیْنَ) نَسِیْئَۃً)) کے لفظ ’’أو‘‘ (یا) پر ہے۔ لفظ ’’أو‘‘ تردد اور ابہام پر دلالت کرتا ہے ۔ لیکن پہلے آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ بعض نے حدیث کی یہ تفسیر ’’أو‘‘ کی بجائے ’’و‘‘ (اور ) کے ساتھ کی ہے ۔ لہٰذا پھر نہ تردد باقی رہتا ہے اور نہ کوئی ابہام ، اس وقت یہ صورت دو بیع پر مشتمل ہو گی جن میں سے ایک کم قیمت پر ہو گی اور دوسری زیادہ قیمت پر ، پہلی نقد پر ہو گی اور دوسری اُدھار پر۔
پھر صاحب تہذیب کے اس کلام میں کئی اور مقام قابل نظر ہیں جو کہ ہماری سابقہ بحث اور خصوصاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول : ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃفَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا)) کس پر صادق آتا ہے اور کس پر صادق نہیں آتا؟ کی تفصیل پر غور کرنے سے ظاہر ہو سکتے ہیں۔
صاحب مضمون کہتے ہیں : اس طرح قسطوں کی بیع کی ممانعت پر ان کا استدلال کہ اس سے سود اور فضول خرچی کا دروازہ بند ہو گا ‘‘ اس بات کی کوئی قدرو قیمت نہیں جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا))یہ حدیث اپنے عموم کی وجہ سے قسطوں کی بیع کو بھی شامل ہے کیونکہ اس میں بھی نقد قیمت سے زیادہ وصول کی جاتی ہے ( جیسا کہ تفصیل گزر چکی ہے۔)
’’قسطوں کی بیع‘‘ افراد ، خاندانوں اور سوسائیٹیز پر کیا بھیانک اور برے اثرات مرتب کرتی ہے؟ اس کے بارے میں اگر آپ صحیح معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو الریاض سپریم کورٹ کے قاضی الشیخ عبداللہ بن ناصر السلمان حفظہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’وجوب حفظ المال و أثر التقسیط علیہ ‘ ‘ پڑھیں ، قطع نظر اس بات کے کہ قسطوں کی بیع جائز ہے یا ناجائز ۔
اور اگر آپ بیوع کے حیلوں کے بار ے میں ’ جو آخر کار سود تک لے جاتے ہیں ‘ معلوم کرنا چاہتے ہیں تو بیع عینہ وغیرہ کی حرمت کے اسباب کے متعلق حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ نے ’’تہذیب السنن ‘‘ میں جو لکھا ہے وہ پڑھیں ، انہوں نے اس مسئلہ پر بہت عمدہ اور اچھے پیرائے میں کلام کیا ہے مگر بعض مقامات پر اُن سے تسامح ہوا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی چیز کی ’’نقد بیع مثلاً دس کی ، اور اُدھار پندرہ کی ‘‘ جائز نہیں اور اس بیع کی صورتوں میں سے قسطوں کی بیع بھی ہے جس میں ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے نقد کی قیمت سے زیادہ لی جاتی ہے۔ دلیل اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہٗ أَوْ کَسُھُمَا أَوِ الرِّبَا))
اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی چیز کو خواہ شروع میں صرف اُدھار کی ہی بات ہو ‘ اس کو موجودہ قیمت سے زیادہ پر بیچنا جائز نہیں ، اس لیے کہ اس میں سود داخل ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان اعمال کی توفیق عطا فرمائے جن میں اس کی رضا ہے ، اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے آل و اصحاب پر کثرت سے درُود و سلام بھیجے۔
والسلام علیکم وعلی من لدیکم
ابن عبدالحق بقلمہ
۱۹؍۶؍۱۴۲۱ھ
قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل
جلد 02 ص 556-587