کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 1030
انشورنش السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ایک انشورنس کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ہم رقم کو بزنس میں لگاتے ہیں EFUاور منافع یا نقصان سرمایہ لگانے والوں میں تقسیم کردیتے ہیں ہم بنک یا دوسری سیونگ سکیموں کی طرح  منافع کی شرح فکس نہیں کرتے،اس کے متعلق واضح کریں کہ ایسی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا شرعاً درست ہے؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! انشورنس جسے بیمہ کہا جاتا ہے ایک جدید کاروباری معاملہ  ہے جس کا اسلامی فقہ کے ابتدائی دور میں کوئی وجود نہیں تھا،یہی وجہ ہے کہ دور حاضر کے جن ماہرین علم نے اس پر بحث کی ہے ان کی آراءمختلف ہیں۔بعض اس کے جائز ہونے کے طرف رحجان رکھتے ہیں جبکہ بعض دوررس اور باریک بین حضرات نے اس کے برعکس اس کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے،لہٰذا اس کےمتعلق شرعی حکم معلوم کرنے سے پہلے اس معاملہ کی اصل  حقیقت جاننا انتہائی ضروری ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بیمہ نظریہ کے اعتبار سے باہمی تعاون  اور امداد محض پر قائم ہے۔ نظریے کی حد تک یہ ایک ایسا امر ہے جس میں شریعت نے بھی ابھارا ہے ۔دین اسلام نے ہمیں باہمی تعاون ،ایک دوسرے کی مدد ،ایثار اور قربانی دینے کی ترغیب دی ہے،جس کی عملی صورت معاملات ،عطیات اورصدقات  و خیرات ہیں۔ شریعت اسلامیہ نے جہاں اغراض و مقاصد بیان کئے ہیں وہاں ان ذرائع ووسائل کو بھی بیان کیا ہے جوان مقاصد کے حصول کےلئے اختیار کئے جاتےہیں ۔بیمہ نظریہ اور نظام کے اعتبارسے تو تعاون محض پر قائم تھا لیکن عملی طورپر جو ذرائع استعمال کئے گئے ہیں وہ اس نظریہ کی نفی کرتے ہیں ،جیسا کہ آیندہ معلوم ہوگادراضل امداد باہمی پر مبنی یہ نظام جب یہودیانہ ذہنیت کی بھینٹ چڑھا تو اسے پہلے تو کاروباری شک دے دی گئی ،پھر سود ،دھوکہ اور جوئے جیسے بدترین عوامل و عناصر کو اس میں شامل کرکے اس پر سے  تعاون محض کی چھاپ کو اتار دیاگیا یہ بیمہ اشخاص اورکمپنی کے درمیان ایک خاص عقد کا نام ہے جس میں افراد اور کمپنیوں کے درمیان مندرجہ ذیل امور طے پاتے ہیں۔ (۱)طالب بیمہ ایک معینہ مدت تک بالا اقساط ادا کرتا ہے اس کے عوض بیمہ کمپنیاں اسے خطرات سے تحفظ اور گراں قدر سالانہ منافع پیش کرتی ہیں۔ (۲)یہ کمپنیاں اپنی صوابدید کےمطابق جہاں چاہیں اس رقم کو صرف کریں۔ طالب بیمہ اس سے قطعی طورپر لاتعلق ہوتا ہے۔ یہ رقم جائز و ناجائز کاموں پر صرف کی جاتی ہے جیسے عمارات کی تعمیر اور بھاری شرح سود پر آگے بڑی کمپنیوں کو قرض دینا وغیرہ۔ (۳)طالب بیمہ اگر معینہ مدت تک زندہ رہے اور پوری رقم بالاقساط ادا کردے تو وہ کمپنی سے ادا کردہ رقم سے زائد وصول کرنے  کا حقدار ہوجاتا ہے۔اگر اس مدت سے پہلے مرجائے تو ا س کی طرف سے نامزد شخص زربیمہ کا مستحق ہوتا ہے۔ (۴)اگر طالب بیمہ معینہ مدت سے پہلے اپنی اقساط بند کرکے معاہدہ بیمہ کو  ختم کرنا چاہے تو جمع شدہ رقم کمپنی ضبط کرلیتی ہے۔ بیمہ کی تعریف  مختصر طورپر یوں کی جاسکتی ہے کہ یہ ایک ایسا معاہد ہ ہے جس کی روسے تحفظ دھندہ ،یعنی بیمہ کمپنی پر یہ لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس شخص کو جس نے بیمہ پالیسی خریدی ہے حاد ثہ یا نقصان پہنچنے کی صورت میں ایک مخصوص رقم ادا کرے۔ اس تعریف سے  بیمہ کے تین عناصر کا پتہ چلتا ہے وہ یہ ہیں: (۱)بیمہ کی قسط (۲)خطرہ(۳)بیمہ کی رقم خطرہ سے مراد امکانی حادثہ ہے جو مستقبل میں کسی وقت بھی پیش آسکتا  ہے یہ خطرہ اور حادثہ ہی اس کاروبار بیمہ میں بنیادی  حیثیت کا حامل ہے اور باقی دوسرے عناصر کے لئے بنیاد  فراہم کرتا ہے۔اس کاروبار کی اہم خصوصیات یہ  ہے کہ معاہد ہ کی روسے فریقین ذمہ دار بن جاتےہیں اس میں ایک فریق خطرات سے تحفظ فراہم کرنے والا ہے اور دوسرا وہ جسے تحفظ فراہم کیا جاتاہے۔جسےطالب بیمہ کہتےہیں  اس کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اقساط بیمہ کی ادائیگی  کا بروقت بندوبست کرے،یہ ذمہ داری معاہدہ  کی تکمیل  کے وقت ہی  شروع ہوجاتی ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں بیمہ کمپنی کی ذمہ داری غیر  یقینی اور احتمالی ہوتی ہے کیونکہ اس کی ذمہ داری یہ ہےکہ وہ حادثہ پیش آنے کی صورت میں بیمہ کی رقم ادا کرے،اس ذمہ داری کے وجود کا تصور اس کےبغیر ممکن ہی نہیں کہ کوئی حادثہ پیش آئے ،اس وجہ سے  دھوکہ اور احتمال اس کاروبار کا بنیادی رکن اور لازمی عنصر ہے کیونکہ بیمہ کا کاروبار اس کےبغیر ناممکن ہے اور یہ دھوکہ اپنی نوعیت اور قسم کے لحاظ سے انتہائی سنگین ہے۔کیونکہ حصول معاوضہ کے سلسلہ میں اس کی مقدار اور اس کی مدت کے بارے  میں پایا جاتا ہے جبکہ شریعت  نے کاروباری معاملات میں دھوکہ کی معمولی قسم کو بھی حرام ٹھہرایا ہے۔دھوکے کو عربی زبان میں ‘‘غرر ’’کہتے ہیں جس  کی تعریف یہ ہےکہ ‘‘وہ غیر طبعی ،غیر معمولی اور غیر یقینی صورت حال جس کے پیش نظر کسی معاملہ یا لین دین کے ضروری پہلو متعین  نہ کئے جاسکیں اور فریقین آخر وقت  تک اس معاملہ میں غیر یقینی کا شکار رہیں کہ ا ن کے معاملہ کی اصل صورت بالآخر کیا ہوگی۔’’غرر کی متعدد تعریفات  سے اس کے جو اہم عناصر  سامنے آئے ہیں،وہ شک و شبہ ،غیر یقینی کیفیت  اور معاملہ کے بنیادی اجزاء کا غیر معلوم اور غیر معین ہونا ہے۔ جس معاملہ میں یہ عناصر  پائے جائیں وہ معاملہ مبنی بردھوکہ سمجھا جائے گا اور شریعت میں ایسا  معاملہ ناجائز اور حرام ہے۔ہم اس مقام پر یہ وضاحت کردیناضروری  خیال کرتے ہیں کہ بیمہ کےمتعلق محل اختلاف اس کا نظریہ اور نظام ہرگز نہیں ہے بلکہ محل اختلاف وہ طریق کار اور ذریعہ ہے جو  اس کے نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اختیار کیا گیا ہے۔اس کے  طریق کار کے پیش نظر کاروبار غیر یقینی اور سنگین دھوکے والا معاملہ ہے۔ اس کے غیر یقینی ہونے سے یہ مراد ہے کہ اس میں فریقین میں سے ہر ایک کو معاہدہ کی تکمیل کےوقت معاوضہ کی اس مقدار کا علم نہیں ہوتا  جو وہ ادا کرےگا یا وصول کرے گا۔ اس لئے کہ  وہ تو اس خطرہ کے وقوع یا عدم  وقوع پر موقوف ہوتا ہے جس سے تحفظ دیا گیا ہے اور یہ بات اللہ کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا کہ حاد ثہ پیش آئے گا یا نہیں،اگر آئے گا تو کب آئے گا ؟بعض اوقات طالب بیمہ ایک ہی قسط ادا کرنے کے بعد حادثے سے دوچار ہوجاتا ہے اور رقم بیمہ کا حقدار بن جاتا ہے جبکہ بعض اوقات پوری اقساط ادا کرنے کے باوجود حادثہ پیش نہیں آتا،اس طرح تحفظ فراہم کرنے والی بیمہ کمپنی کو معاہدہ کے وقت علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا وصول کرے گی اور کیا ادا کرے گی کیونکہ بعض اوقات ایک ہی قسط وصول کرنے کے بعد حادثہ پیش آجاتا ہے اور اسے بیمہ کی رقم طالب بیمہ کو ادا کرنا پڑتی ہے اور بعض اوقات پوری اقساط وصول کرلیتی ہے ،لیکن حادثہ پیش ہی نہیں آتا،اس طرح یہ معاملہ سراسر ایک ‘‘اندھا سودا’’ ہے ۔ جس میں دھوکے کا پہلو نمایا ں طورپر موجود ہے جس کی مزید وضاحت حسب ذیل  ہے: مالی معاملات میں دھوکہ چار طرح سے ہوسکتا ہے۔ (۱)خود کسی چیز کے وجود میں دھوکہ ہو ،جیسا کہ گم شدہ اونٹ کی خریدوفروخت۔ (۲)کسی چیز کے حصول  میں دھوکہ ہو،جیسے اڑتے ہوئے پرندوں کی خریدوفروخت ۔ (۳)کسی چیز کی  مقدار میں دھوکہ ہو ،جیسا کہ پتھر پھینکنے کی جگہ تک زمین کی خریدوفروخت ۔  مدت حصول میں دھوکہ ہو،جیسا کہ حمل کےجنم تک قیمت ادا کرنا وغیرہ کاروبار  (۴) بیمہ میں دھوکہ کی یہ چاروں اقسام پائی جاتی ہیں۔ ٭کسی چیز کے وجود میں دھوکے کا پایا جانا،یہ دھوکہ کی شدید ترین قسم ہے  یہی وجہ ہے کہ فقہا نےصرف معدوم چیز کے معاوضہ پر ہی بطلان کا حکم نہیں لگایا بلکہ وہ اس کے حکم کے تحت ہر اس چیز کو شامل کرتے ہیں جس کے وجود اورعدم  دونوں کا احتمال ہو،دھوکہ کی یہ قسم کا روبار بیمہ میں پوری طرح دیکھی جاسکتی ہے کیونکہ بیمہ کی جو رقم کمپنی کے ذمے ہوتی ہے اس کا وجود غیر یقینی ہے کیونکہ اس کا وجود  حادثہ پر موقوف ہوتا ہے اور وہ خود غیر یقینی ہے۔ ٭کسی چیز کے حصول میں دھوکہ پایا جانا اس کے معاوضہ کو  باطل کردینا ہے،جیسا کہ دریا میں تیرتی ہوئی مچھلیوں کی قیمت ادا کرنا کیونکہ یہ جو شخص ان کی قیمت ادا کرتا ہے وہ گویا ان کے حصول کو داؤ پر لگا رہا ہے وہ معاملہ کرتے وقت یہ نہیں جانتا کہ اس نے جس  چیز کی قیمت ادا کی ہے وہ اسے حاصل بھی کرسکے گا یا نہیں ،جبکہ اس نے معاوضہ صرف اس چیز کو حاصل کرنے کےلئے ادا کیا ہے بیمہ کے کاروبار میں بھی یہ دھوکہ پایا جاتا ہے کیونکہ طالب بیمہ معاہدہ کرتے وقت یہ نہیں جانتا کہ آیابیمہ کی جس رقم کے بدلے اس نے اقساط ادا کی ہیں وہ اسے حاصل کرسکے گا یا نہیں ،کیونکہ اس کا حصول تو اس حادثہ پرموقوف ہے جس کا واقعی ہونا یقینی نہیں ہے۔ ٭معاوضہ کی مقدار کا دھوکہ بھی وجود اور حصول کی طرح معاوضہ کو با طل کردیتا ہے ،جیسا کہ مٹھی بند روپوں کے عوض کوئی چیز خریدنا شرعاً باطل ہے اس طرح نقصانات کے بیمہ میں طالب بیمہ کو معاہدہ کرتے وقت اس معاوضہ کی مقدار کا علم نہیں ہوتا جو بیمہ کمپنی حادثہ پیش آنے کی صورت میں ادا کرےگی اور اس طرح بیمہ کمپنی بھی معاہدہ طے ہوتے وقت اس بات سے بے خبر ہوتی ہے کہ وہ طالب بیمہ سے جو کچھ حاصل کرے گی اس کی مقدار کیا ہوگی،کیونکہ بعض اوقات ایک ہی قسط وصول کرنے کے بعد حادثہ پیش آجاتا ہے جبکہ بعض اوقات تمام اقساط وصول کرنے کے باوجود حادثہ پیش نہیں آتا۔ ٭معاوضے والے معاملات میں اگر مدت معلوم نہ ہو توبھی معاملہ با طل ہوجاتا ہے،جیسا کہ حمل کی خریدوفروخت ،اس لئے منع ہے کہ اس کی معیاد غیر متعین ہوتی ہے۔اسی طرح تاحیات بیمہ پالیسی میں بیمہ کمپنی ،بیمہ کی رقم طالب بیمہ کے مرنے کی صورت میں ادا کرنے کا عہد کرتی ہے،جبکہ یہ معیاد،یعنی اس کے مرنے کا وقت نامعلوم اور غیر متعین  ہے۔ بیمہ کا معاملہ‘‘جوے’’پر مشتمل ہے۔ بیمہ کا کاروبار ا س لئے بھی حرا م اور ناجائز ہے کہ اس میں جو ا پایا جاتا ہے جو قرآن کریم کی نظر میں ایک شیطانی عمل ہے حصول زر کی ہر وہ شکل جو ا ہے جس میں اسے حاصل کرنے کا دارومدار محض اتفاق پر ہو اور دوسرے یکساں حق رکھنے والوں کے مقابلہ میں ایک شخص کسی لاٹری،قرعہ اندازی یا محض کسی اور اتفاق کے نتیجہ میں رقم کو حاصل کرلے۔ یہ تمام جوے کی اقسام ہیں  جوے کی تعریف کا روبار بیمہ پر اس طرح صادق آتی ہے کہ جوے میں فریقین اس بات کا عہد کرتےہیں کہ وہ دوسرے کو ایک مقررہ رقم کوئی حادثہ  پیش آنے پر ادا کرے گا،کاروبار بیمہ میں بھی یہی ہوتا ہے کہ بعض اوقات طالب بیمہ ایک  قسط ادا کرنے کے بعد مرجاتا ہے ،تو اس کےنامزد کردہ وارث کو ادا کردہ رقم سے کئی گنا زیادہ رقم مل جاتی ہے اس کا اس طرح مرنا ہی  ایک اتفاقی حادثہ ہے جو نامزد وارث کےلئے کثیر رقم ملنے کا باعث بنا ہے تھوڑی سی محنت کرکے اتفاقی طورپر بہت زیادہ رقم ہتھیا لینا ‘‘میسر’’کہلاتا ہے۔ جس سے قرآن کریم نے منع فرمایا ہے۔ اس طرح طالب بیمہ اگر معینہ مدت سے پہلے اپنے عقد کو فسخ کرنا چاہے اور بقیہ اقساط کی ادائیگی روک لے تو اس صورت میں کمپنی جمع شدہ رقم کی مالک بن جاتی ہے۔ یہ بھی ‘‘قمار’’کی ایک قسم ہے جس کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ اس کاروبار میں سود کی دونوں قسمیں پائی جاتی ہیں۔ طالب بیمہ جو رقم  اقساط کی صورت میں کمپنی کو ادا کرتا ہے  اگر حادثہ کے وقت اس کے مساوی رقم واپس ملے تو ایک طرف سے نقد ادائیگی اور دوسری طرف سے ادھار ہونے کی بناپر یہ ادھا ر کا سود ہے جسے شریعت کی اصطلاح میں ‘‘ربا النسیئۃ’’کہتے ہیں اور اگر وہ ادا کردہ رقم سے زیادہ ہے تو یہ اضافے کا سود ہے جسے‘‘ربا الفضل ’’کہا جاتا ہے کیونکہ یہ زائد رقم اس کی ادا کردہ رقم کے عوض ملتی ہے سود یہی ہوتا ہے کہ ایک آدمی کچھ رقم کسی دوسرے کو دیتا ہے ،پھر ایک خاص مدت کے بعد اس رقم کے عوض وصول کرتا ہے ۔جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :‘‘اگر تم توبہ کرلو تو صرف اپنی رقم کے حقدار ہو۔’’(۲/البقرہ:۲۷۹) نیز معینہ مدت تک زندہ رہنے اور تمام اقساط ادا کرنے کی صورت میں طالب بیمہ مجموعی رقم سے زائد زربیمہ لینے کا مستحق ہوتا ہے یہ اضافہ کے ساتھ خطیر رقم یکمشت یا بالا قساط لے سکتا ہے ۔ یہ سود کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ کاروبار بیمہ ضابطہ وراثت سے  متصاد  م ہے۔ یہ کاروبار اس لئے بھی ناجائز ہے کہ اس پر عمل کرنے سے ضابطہ وراثت مجروح ہوتا ہے کیونکہ مرنے کی صورت میں زربیمہ کا مالک وہ نامزد شخص بن جاتا ہے جو طالب بیمہ نے اپنی زندگی میں مقرر کیا ہوتا ہے۔باقی ورثاء اس سے محروم ہوتے ہیں ،حالانکہ  اس کے ترکہ میں تمام شرعی  ورثاء شریک ہوتے ہیں۔دور جدید میں فلمی اداکارہ کے حسن و جمال اور ایک مغنیہ اور گلوکارہ کی آواز کا بیمہ بھی ہوتا ہے،اس بیمہ نے ایسے نام نہاد مفادات کوجنم دیا ہے جنہیں شریعت سرے سے کوئی مفاد ہی تسلیم نہیں کرتی،اس طرح اس کاروبار میں’’التعاون علی الاثم والعدوان‘‘بھی پایا جاتا ہے، لہٰذا اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ سوال میں اس پہلو کو بھی اٹھایا گیا ہے کہ کاروبار میں جو رقم  جمع ہوتی ہے، اسے کاروبار میں لگایا جاتا ہے،پھر اس کےمنافع یا نقصانات کو سرمایہ لگانے والوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے،یعنی یہ مضاربت کی ایک قسم ہے اس کاروبار کو مضاربت قراردینا درج ذیل وجوہات کی بنا پر محل نظر ہے: ٭مضاربت کی صحت کے لئے ضروری ہے کہ اس میں منافع کی شرح نسبت کی بنیاد پر ہو،مثلاً:ایک آدمی محنت کرتا ہے اور دوسرا رقم دیتا ہے تو اخراجات کے بعد جو منافع ہوگا وہ ایک خاص شرح کےمطابق تقسیم ہوگا۔مثلاً:50فیصد محنت کرنے والا اور 50فیصد رقم خرچ کرنے والا اور کوئی شرح مقرر کرلی جاتی ہے لیکن صرف رقم پر معین منافع  عقد مضاربت کے لئے مفسد قراردیا گیا ہے،جیسا کہ بیمہ زندگی میں ہوتا ہے،مثلاً:جمع شدہ رقم پر 10فیصد نفع دیا جائے گا، اس لئے دونوں کو ایک دوسرے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔اگرچہ بادیٔ النظر دونوں میں مشابہت پائی جاتی ہے۔ ٭اگر مضاربت میں نقصان ہوتو اس نقصان کو صرف سرمایہ لگانے والا برداشت کرتا ہے ،مضاربت کی محنت تو ضائع ہوتی ہے،اس کے علاوہ مالی نقصان میں وہ شریک نہیں ہوتا جبکہ بیمہ کے کاروبار میں اس قسم کی کوئی چیز نہیں ہوتی ،اس کاروبار میں سرمایہ کار کو ہر صورت منافع ہی ملتا ہے،نقصان کی صورت میں کمپنی ذمہ دار ہوتی ہے۔ ٭مضاربت میں اگر سرمایہ کار فوت ہوجائے تو ورثاء کو صرف اتنا ہی سرمایہ ملتا ہے جتنا اس نے بوقت عقد جمع کرایا تھا جبکہ بیمہ میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ بعض صورتوں میں وہ موت کے بعد بڑی رقم کا مالک بن جاتا ہے۔ ٭مضاربت میں سرمایہ کار کو علم ہوتا ہے کہ میری رقم کس قسم کے کاروبار میں صرف ہورہی ہے جبکہ بیمہ میں سرمایہ کار کو اس قسم کے معاملات سے بالکل لاتعلق رکھا جاتا ہے۔ ٭مضاربت میں اگر سرمایہ کار مرجائے تو اس کی رقم ورثاء کو ملتی ہے جبکہ بیمہ کے کاروبار میں ایسا  نہیں ہوتا بلکہ موت کی صورت میں اس کا حقدار اس کا نامزد کردہ ہوتا ہے،شرعی ورثاء اس کے حقدار نہیں ہوتے۔اس میں قانون وراثت کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ہماری بیان کردہ وجوہات کی بنا پر بیمہ کا کاروبار مضاربت سے مشابہت نہیں رکھتا۔ بیمہ کی جائز صورتیں: بیمہ عملی طورپر جن صورتوں پر مشتمل ہے ،اس کی تین اقسام ہیں: (۱)اجتماعی بیمہ:اسے حکومت یا ا س کا نامزد کردہ کوئی ادا رہ چلاتا ہے عام طورپر محنت مزدوری کرنے والوں کو اس میں شامل کیا جاتا ہے ۔مزدوری کرتے وقت جو حوادث یا امراض لاحق ہوتے ہیں جن کی وجہ سے مزدور معذورہوجاتے ہیں یا وہ بڑھاپے میں پہنچ کر ناکارہ ہوجاتےہیں تو ان کا بیمہ کیا جاتا ہے۔ اس کے لئے آجر ،اجیر اور حکومت اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں ۔واضح رہے کہ یہ کاروبار نہیں بلکہ ایک خدمت ہے جسے شریعت نے پسند کیا ہے اور ایسا کرنے کی ترغیب دی ہے۔ (۲)باہمی بیمہ:یہ کاروبار امداد باہمی کی انجمنیں  چلاتی ہیں جو ایسے ارکان سے مل کر تشکیل پاتی ہیں جنہیں ایک ہی طرح کے خطرات کا سامنا ہوتا ہے اگر کسی کو حادثہ پیش آجائے تو جمع شدہ رقم سے اس کی تلافی کردی جاتی ہے۔ اس کے جائز ہونے میں کوئی شک  نہیں ہے۔ (۳)مقررہ اقساط والا بیمہ:بیمہ کی یہی صورت تھی جسے سابقہ سطور میں زیر بحث لایا گیا ہے ۔ہمارے نزدیک بیمہ کی یہ صورت حرام اور ناجائز ہے کیونکہ اس میں دھوکہ جوا،سود جیسے عناصر شامل ہیں ۔بعض لوگ اس سلسلہ میں شیخ الاسلام مولانا ابوالوفاءثناء اللہ امرتسریؒ کے ایک فتویٰ کا حوالہ بھی دیتے ہیں کہ انہوں نے اسے جائز لکھا ہے۔ حالانکہ ان کے فتوٰی میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سےموجود ہ بیمہ کاری کا جوازکشید کیا  جائے۔تفصیل  کے لئے فتاویٰ ثنائیہ،ص:۳۷۱،ج۱کا مطالعہ مفید رہے گا۔ اس پر مولانا محمد داؤدرازؒ اور مولانا شرفا الدین محدث دہلوی کے توضیحی اشارات بھی ہیں۔(واللہ اعلم بالصواب) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اصحاب الحدیث ج2ص254