کتاب: اجتماعی نظام - صفحہ 103
غیبت کرنے والے سے قطع تعلق السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ میرا ایک دوست ہے جو اکثر لوگوں کی غیبت کرتا رہتا ہے ، میں نے اسے سمجھایا ہے لیکن بے سود اور معلوم ہوتا ہے کہ غیبت کرنا اس کی عادت بن چکا ہے ، ممکن ہے کہ بسا اوقات لوگوں کے بارےمیں اس کی گفتگو حسن نیت ہی سے ہو تو کیا اس سے تعلق قطع کرنا جائز ہے ؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! مسلمانوں کی عزتوں کے بارے میں ایسی گفتگو کرناجسے وہ ناپسند کرتے ہوں ایک بہت بڑی برائی ،حرام غیبت اورکبیرہ گناہ ہے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی ٰنے فرمایا ہے : ﴿وَلا یَغتَب بَعضُکُم بَعضًا ۚ أَیُحِبُّ أَحَدُکُم أَن یَأکُلَ لَحمَ أَخیہِ مَیتًا فَکَرِ‌ہتُموہُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّہَ ۚ إِنَّ اللَّہَ تَوّابٌ رَ‌حیمٌ ﴿١٢﴾... سورةالحجرات اورنہ کوئی کسی کی غیبت کرے ۔ کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند کرے گاکہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟اس سے تو تم ضرورنفرت کرو گے ۔ (توغیبت نہ کرو) اور اللہ کاڈر رکھو،بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔‘‘ «أَتَدْرُونَ مَا الْغِیبَةُ؟» قَالُوا: اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: «ذِکْرُکَ أَخَاکَ بِمَا یَکْرَہُ» قِیلَ أَفَرَأَیْتَ إِنْ کَانَ فِی أَخِی مَا أَقُولُ؟ قَالَ: «إِنْ کَانَ فِیہِ مَا تَقُولُ، فَقَدِ اغْتَبْتَہُ، وَإِنْ لَمْ یَکُنْ فِیہِ فَقَدْ بَہَتَّہُ» (صحیح مسلم ،البر والصلة، باب تحریم الغیبة: 2589 ) ’’کیا تم جانتے ہو کہ غبت ہے ؟ صحابہ کرام عرض کیا : اللہ اوراس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں فرمایا :یہ کہ تم اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرو  جسے و ہ ناپسند کرے ۔‘‘ عرض کیاگیا :اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو ،جسےمیں بیان کررہا ہوں؟ آپ نےفرمایا : اگر اس میں یہ خرابی موجود ہے ، جو تم کہہ رہے ہو تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر یہ اس میں موجود نہیں ہے توتم نے اس پر بہتا ن باندھا ہے۔‘‘ یہ بھی صحیح حدیث ہے کہ شب معراج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس ہوا ، جن کےتانبےکےناخن تھے اور وہ ان کے ساتھ اپنے چہروں اور سینوں کو زخمی کر رہے تھے ۔ آپ نے فرمایا : جبریل! یہ کون لوگ ہیں ؟ جبریل علیہ السلام نے بتایا : ہَؤُلَاءِ الَّذِینَ یَأْکُلُونَ لُحُومَ النَّاسِ، وَیَقَعُونَ فِی أَعْرَاضِہِمْ " (سنن ابی داؤد  ،الادب ،باب فی الغیبہ ،ح ومسند احمد : 3؍224) ’’یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں اوران کی عزتوں کو پامال کرتےتھے ‘‘ اسے امام احمد اور ابو داؤد نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے جید سند کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ علامہ ابن مفلح فرماتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے ۔ امام ابو داؤد نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو مرفوع روایت کو بھی بیان کیا ہے ، جس کی سند حسن ہے : «إِنَّ مِنْ أَکْبَرِ الْکَبَائِرِ، اسْتِطَالَةَ الْمَرْءِ فِی عِرْضِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ بِغَیْرِ حَقٍّ، وَمِنَ الکَبَائِرِ السَّبَّتَانِ بِالسَّبَّةِ» (سنن ابی داؤد  الادب، باب فی الغیبہ ، ح : 4877) ’’کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی مسلمان آدمی کی عزت پر ناحق زباندرازی  کی جائے ۔‘‘ آپ اور دیگر تمام مسلمانوں کے لیے یہ واجب ہے کہ اس شخص کی صحبت کو اختیار نہ کریں ،جو مسلمانوں کی غیبت  کرے البتہ اسے نصیحت کی جائے اور اس کے غیبت کرنے کی مخالفت کی جائےکیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : " مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَإِنْ اسْتَطَاعَ أَنْ یُغَیِّرَہُ بِیَدِہِ فَلْیَفْعَلْ " وَقَالَ مَرَّةً: " فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ، (7) فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ بِیَدِہِ فَبِلِسَانِہِ، فَإِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ بِلِسَانِہِ (8) فَبِقَلْبِہِ، وَذَلِکَ (9) أَضْعَفُ الْإِیمَانِ " (صحیح مسلم ، الایمان ، باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان ۔۔۔۔۔ الخ ، ح 49) "تم میں سے جو کوئی برائی کو دیکھے تو اسے ہاتھ سےمٹادے اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے سمجھادے او راگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اسے دل سے برا جانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے ۔‘‘ اوراگر وہ آپ کی بات کہ نہ مانے تواس کی ہم نشینی کو ترک کردو کیونکہ یہ بھی اس برائی کی ترید ہی کے قبیل سے ہے  ۔ اللہ تعالی تمام مسلمانوں کے حالات درست فرمائے اور انہیں ان  اعمال کی توفیق بخشے ، جو دنیا و آخرت میں ان کے لیے موجب سعادت ونجات ہوں ۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج4ص474