کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 98
تارتار کرکے پھینک دیا ہے، اس لیے اس کی حفاظت کی ان کے ہاں کوئی اہمیت باقی نہیں رہی ہے۔ دوسرا مقصد، اسلام کا عورت کی صنفی مجبوریوں اور اس کی فطری استعداد وصلاحیت کا احترام ورعایت ہے۔ اس سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا کہ مرد اور عورت دونوں کا مقصد تخلیق ایک دوسرے سے جدا ہے اور اسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے دونوں کی فطری صلاحیتوں اور قوت عمل میں بھی فرق رکھا ہے۔ شریعت اسلامیہ نے اسی لیے دونوں کا دائرہ کار بھی ایک دوسرے سے الگ رکھا ہے۔ ایک کا دائرہ عمل گھر کی چار دیواری ہے، وہاں کے خانگی امور ہیں، بچوں کی نگرانی اوردیکھ بھال ہے، خاوند کی خدمت واطاعت ہے۔ دوسرے کا دائرہ عمل گھر سے باہر ہے، وہ محنت مزدوری کرے یاملازمت، کھیتی باڑی کرے یا تجارت، کسب معاش اسی کی ذمے داری ہے۔ عورت صرف گھرکی ملکہ ہے، اس کا کام سڑکوں کی خاک چھاننا نہیں ہے، ملازمت کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانا نہیں ہے، غیروں کی ناز برداری یا اپنے ناز وادا سے ان کا دل بہلانا نہیں ہے۔ اس لیے ہمارا پختہ ایمان ہے کہ دیگر تعلیمات کی طرح عورت کے بارے میں بھی اسلام کا ایک ایک حکم حکمت بالغہ پر مبنی ہے اور انسانی معاشروں کی اصلاح اور انسانیت کی فلاح وبہبود ان احکام کی پابندی ہی میں منحصر ہے۔ ان سے انحراف میں فساد اور بربادی ہی بربادی ہے ان سے صرف نظر، یاگریز واعراض کرکے کوئی معاشرہ حقیقی فلاح اور امن وسکون سے بہرہ ور نہیں ہوسکتا، بنابریں اس کے کسی حکم میں حالات وزمانے کے اعتبار سے ترمیم اور حک واضافہ نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اس ذات کے نازل کردہ ہیں جو[عَالِمُ مَا کَانَ یَکُونُ] ہے جوماضی اورحاضر ومستقبل میں رونما ہونے والے واقعات سے باخبر ہے۔