کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 95
وہ اجتہادی اقوال وآراء ہیں تو پھر ان مسائل میں تبدیلی کامشورہ مغرب زدہ متجددین کی ہم نوائی کے سوا کیا ہے۔ جوتغیر حالات کے نام پر ساری شریعت ہی کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ کیا یہ حضرات بھی نصوص میں تبدیلی کے قائل ہیں۔ اگر نہیں ہیں تو پھر ان حضرات کی طرف سے اس قسم کا مشورہ ان کے فکری تضاد ہی کاغماز کہلائے گا۔
ان کی ایک دلیل ان کا یہ کہنا بھی ہے کہ مدینہ اورحجاز کامعاشرہ بدوی تھا اور وہاں دوسری تہذیبوں کے اثرات کم تھے۔ یہ وہی بات ہے جو متجددین بھی کہتے ہیں اور وہ اس حوالے سے عورت کومغرب کی طرح مادرپدرآزادی دینا چاہتے ہیں اور اسلامی احکام میں ایسی ترمیم واصلاح کرنا پسندکرتے ہیں جس سے اسلامی تہذیب کی خصوصیات ختم اور مغرب کی حیاباختہ تہذیب کاجواز ثابت ہوجائے، حالانکہ اسلام ایک ایسا ابدی مذہب ہے جس کے ساتھ ہی نبوت کاخاتمہ بھی کردیاگیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام ایک عالم گیر مذہب ہے، کسی مخصوص علاقے اور ملک کے لیے نہیں ہے اور قیامت تک کے لیے ہے، کسی محدود دور کے لیے نہیں ہے۔
اس لیے جدید مفکرین اور دانشوران عصر کا یہ دعویٰ کہ مدینہ وحجاز کامعاشرہ بدوی تھا، یکسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے احکام کسی معاشرےکے مطابق اور اس کی رعایت میں نازل نہیں فرمائے بلکہ انسانی فطرت کے مطابق اتارے ہیں، جس میں کوئی تبدیلی جغرافیائی اعتبار سے آسکتی ہے نہ لیل ونہار کی کسی گردش سے، یعنی زمان ومکان اور اس کی تبدیلیوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ انسان کسی بھی علاقے اور ملک سے تعلق رکھتا ہو اور قیامت تک کسی بھی زمانے میں وہ وجود پذیرہو۔ اسلامی احکام وتعلیمات اس