کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 94
حالات کی تبدیلی سے اجتہادی احکام تبدیل ہوسکتے ہیں نہ کہ منصوص احکام بعض لوگ کہتے ہیں کہ اب حالات بدل گئے ہیں اور معاشرے میں سماجی، سیاسی اور قانونی لحاظ سے عورت کی حیثیت پہلے سے مختلف ہوچکی ہے، لہٰذا عورتوں کے حوالے سے نصوص اسلامی کی نئی تشریح یادوسرے لفظوں میں عورتوں سے متعلق اجتہادی قوانین پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ [1] لیکن ہم عرض کریں گے کہ ایسے اہل علم وفکر اوراصحاب دانش وبینش یاتومغربی افکار سے متأثر ہیں یاذہنی تضاد کاشکارہیں۔ ایک طرف یہ حضرات ائمہ کے مسالک اور ان کے دلائل بھی نقل فرماتے ہیں اور دوسری طرف انہیں ان کا اجتہاد قرار دے کر ان میں تبدیلی کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اجتہادی مسائل، ابدی نہیں ہیں، ان میں حالات وظروف کے مطابق تغیر وتبدل کے تمام علماء قائل ہیں لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ عورتوں سے متعلقہ احکام ومسائل اجتہادی ہیں یانصوص شریعت پرمبنی۔ اجتہادی مسئلہ تو وہ ہوتا ہے جس کی بابت قرآن کریم یاحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی نص نہ ہو اور علماء نے اس سے ملتے جلتے کسی مسئلے پر قیاس کرکے اس کے جواز یا عدم جواز کاحکم اخذ کیا ہو۔ کیا خیارِ بلوغ یا عاقل بالغ لڑکی کے ولی کی اجازت کے بغیر از خود شادی کرلینے یاحجاب وغیرہ کے مسائل اجتہادی ہیں یانصوص پر مبنی۔ اگر یہ فقہاء کے اجتہادی مسائل ہیں، پھر تو یقیناً ان میں حالات کے مطابق تبدیلی کامشورہ صحیح ہے اور اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے کیونکہ خود یہ حضرات بھی ائمہ کے دلائل نقل فرماتے ہیں جونصوص قرآن وحدیث پرمبنی ہیں نہ کہ
[1]