کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 93
ولی کو اولاد سے محبت بھی ہوتی ہے اور اس کے اندر اس کی مدد اور اس کے حقوق ومفادات کی حفاظت کا جذبہ بھی۔ علاوہ ازیں اس کو اولاد پرغلبہ وتسلط بھی حاصل ہے۔ ایک تو فطری طور پر ہی، جیسا کہ ابھی وضاحت گزری۔ دوسرے، باپ کی شفقت ورعایت اور اس کے مالی اور دیگر ہر قسم کے تعاون ہی سے اولاد نشونماپاتی اور پروان چڑھتی ہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ اولاد جوان ہونے کے بعد ولی پرفائق اور برترہوجائے۔ یہ فطرت کے بھی خلاف ہے اورجذبۂ ممنونیت واحساس تشکر کےبھی برعکس، اس لیے منشائے شریعت بھی یہی ہے اورتقاضائے انصاف بھی کہ ولی کاحق ہرلحاظ سے غالب اور مقدم رہے اور ولی اور اولاد میں اختلاف کی صورت میں صرف اولاد کی بلوغت کو دیکھ کر ولی کی ولایت کو نظر انداز کردینا روح شریعت کے بھی خلاف ہے اورانصاف کے تقاضوں سے بھی انحراف۔ ہاں ! اگر ولی اپنے حق ولایت کوغلط استعمال کرے اور جبر کے ذریعے سے ظلم وزیادتی کاارتکاب کرے تو اور بات ہے۔ اس قسم کی صورتوں میں خود شریعت نے بھی دوسرے لوگوں کومداخلت کر کے انصاف کااہتمام کرنے کی تاکید کی ہے۔ فقہی اصطلاح میں ایسے غیر مشفق باپ کو’’ولیٔ عاضل‘‘ سے تعبیر کیاگیا ہے اوراس کی ولایت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیاگیاہے۔ اس صورت میں چچا، تایا وغیرہ ولی قرارپائیں گے یا پھر وقت کا امام، قاضی اورحاکم۔ [1]
[1] مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم کی کتاب’’مفرور لڑکیوں کانکاح اور ہماری عدالتیں، مسئلہ ولایت نکاح کاتحقیقی جائزہ‘‘ مطبوعہ دارالسلام، لاہور