کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 92
کیسوں میں یقیناً لڑکی کے حق میں فیصلہ دیا جاسکتا ہے اور دیاجاناچاہیے لیکن جہاں ظلم وجبر کا کوئی پہلو نہ ہو، وہاں صرف اس بنیاد پرلڑکی کے حق میں فیصلہ کردینا کہ لڑکی عاقل بالغ ہے، یکسر غلط ہے جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور تمام ائمہ دین کی رائے کے بھی خلاف ہے۔ لڑکیوں کی اس آزاد روی اور بے راہ روی کی تائید بہت خطرناک ہے۔
مرد کو اللہ تعالیٰ نے قَوام بنایا ہے جس کے معنی ہیں حاکم اورنگران۔ مرد عورت کے مقابلے میں گھر کا سربراہ اور اس کامحافظ ونگران ہے۔ اس برتری اور ایک گونہ فضیلت کی دو وجہیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ نے مرد کو عورت کے مقابلے میں زیادہ عقل وفہم اور زیادہ جسمانی قوت وطاقت عطا کی ہے۔ دوسری، یہ کہ کسب معاش کاذمے دار صرف اور صرف مرد ہے۔ ہرچھوٹے بڑے ادارے کے حسن انتظام کے لیے ایک سربراہ، منتظم اعلیٰ اور محافظ ونگران کاوجود ضروری ہے۔ اس کے بغیر کوئی ادارہ قائم ہوسکتا ہے نہ باقی ہی رہ سکتا ہے۔ اس اعتبار سے گھر کی سربراہی اللہ تعالیٰ نے مذکورہ دو امتیازی خوبیوں کی وجہ سے مرد کو عطا کی ہے جوفطری طور پر اسے حاصل ہے۔ اس کو تسلیم کیے بغیر گھر کانظام صحیح طریقے سے نہیں چل سکتا۔
جب میاں بیوی میں سے حاکمیت مرد کوحاصل ہے تو اولاد پر بھی حاکمیت کافطری حق مرد ہی کوحاصل ہے۔ اولاد کے مقابلے میں مرد کے حق حاکمیت کا نام قَوامیت کی بجائے ولایت ہے۔ جس طرح قَوامیت کے لغوی مفہوم تک میں بھی حاکمیت کامفہوم شامل ہے۔ اسی طرح ولایت کے دولغوی معنی ہیں۔ ایک محبت ونصرت اور دوسرے سلطنت وقدرت۔ ان دونوں مفہوموں کے اعتبار سے ولی کو اولاد پر ہر طرح فوقیت حاصل ہے۔