کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 91
دونوں کی رضا کااکٹھا ہونا ضروری ہے، اس لئے کہ اگر ولی لڑکی کی رضامندی کو نظرانداز کرے گا تو لڑکی کوانکار کرنے کاحق ہے اور اگر لڑکی ولی کی رضامندی کواہمیت نہیں دے گی تو ولی کو حق استرداد حاصل ہے اور یہی مسلک دوسرے ائمہ کا بھی ہے اور نصوص شریعت کا اقتضا بھی یہی ہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کی رضامندی کے بغیر اس کی شادی کرنے سے منع فرمایا ہے اور اگر ولی نے لڑکی کی رضامندی کو نظرانداز کرکے لڑکی کی شادی کردی ہے تو ہمارے پیغمبر نے لڑکی کو فسخ نکاح کاحق عطا کیا ہے یہ تمام چیزیں احادیث میں موجود ہیں جن کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں، اس لئے صرف حوالے پر اکتفاکیاجارہا ہے۔ اس لیے مسئلہ یہ نہیں ہے کہ دوسرے ائمہ لڑکی پر جبر کے قائل ہیں اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ جبر کے قائل نہیں ہیں۔ یہ زندگی بھر کامسئلہ ہے، اسے جبر کے ذریعے سے حل نہیں کیا جاسکتا، چنانچہ کوئی بھی مکتب فکر جبر کاقائل نہیں ہے۔ سب کے نزدیک دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔ شریعت صرف یہ کہتی ہے کہ نوجوان لڑکی، زندگی کے نشیب وفراز سے آگاہ نہیں ہوتی، علاوہ ازیں جوانی کے جذبات اور جوش میں وہ غلط فیصلہ کرسکتی ہے، اس لئے ولی کی اجازت اوررضامندی کے بغیر وہ شادی کرنے کااقدام نہ کرے حقیقت یہ ہے کہ چند بدقماش اورخودغرض افراد کو چھوڑ کر، والدین سے بڑھ کر دنیا میں اولاد کا اوربالخصوص لڑکیوں کا کوئی خیرخواہ نہیں۔ ہروالد اپنی بچی کے لیے بہتر سے بہتر اور موزوں سے موزوں تررشتے کاخواہش مندہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے بھرپور کوشش بھی کرتا ہے اور استثنائی صورتوں میں جہاں ولی کی طرف سےظلم وجور کا ارتکاب ہو، وہاں شریعت نے خود لڑکی کو عدالت یا پنچائت کے ذریعے سے داد رسی کی اجازت دی ہے۔ اس قسم کے استثنائی