کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 90
مذکورہ قسم کی شادیوں کو، جن میں لڑکی اپنے ولی کی رضامندی اور اجازت کونظرانداز کرکے اسلامی اقدار وروایات سے انحراف کرتی ہے، فقہ حنفی کی تائید حاصل ہے اور وہ اس کے حق میں فیصلہ کردیتے ہیں، حالانکہ اس میں کفو کے تقاضوں کوملحوظ نہیں رکھا گیا ہوتا ہے جو اس کے جواز کی بنیادی شرط ہے کیونکہ اگر کفو کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے لڑکی شادی کرے تو والدین بالعموم اس سے اتفاق نہ کرنے کے باوجود قبول یاگوارا کرلیتے ہیں۔ اس قسم کی شادیوں میں جتنے بھی کیس عدالتوں میں جاتے ہیں وہ سب ایسے ہی ہوتے ہیں کہ والدین کے نزدیک لڑکی ایسی جگہ شادی کرلیتی ہے یا کرنے پرمصر ہوتی ہے جس میں لڑکی کے ولی اور اہل خاندان عار محسوس کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے عدالتیں لڑکیوں کے حق میں فیصلہ دے دیتی ہیں۔ علمائے احناف سے پوچھا جاتا ہے تو وہ بھی مذکورہ شرط کو نظرانداز کرکے اس کے جواز کا فتویٰ دے دیتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ فیصلے اورفتوے شریعت اسلامیہ کی نصوص کے بھی خلاف ہیں اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مسلک کے بھی۔ علاوہ ازیں ان سے وہ خاندانی روایات شکست وریخت کاشکار ہورہی ہیں جو ایک اسلامی معاشرے کی امتیازی خصوصیات کے طور پر صدیوں سے قائم چلی آرہی ہیں اور ان کی جگہ مغربی معاشرے کی وہ روایات فروغ پارہی ہیں جن میں حیا وعفت کا کوئی تصور نہیں ہے اور اس حیا باختہ تہذیب نے مسلمانوں کے خاندانی نظام کو تباہ کردیا ہے۔
بہرحال ’’کفو‘‘ کی شرط کی موجودگی میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک دوسرے ائمہ سے زیادہ مختلف نہیں رہتا کیونکہ کفو کی شرط کامفادیہ ہے کہ نکاح میں لڑکی اور اس کے ولی