کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 88
اس کامطلب یہ ہے کہ اسلام نےد ونوں کو ایک دوسرے کےجذبات کا احترام کرنے اورایک دوسرے کوراضی کرنے کی تاکید کی ہے۔ والدین کو جبر کرنے کی اجازت دی ہے نہ لڑکی کو والدین کی اجازت اور رضامندی کونظرانداز کرنے کی اور جب بھی اورجہاں بھی لڑکی پر جبر کا پہلو پایاجائے یاوالدین کی اجازت کونظرانداز کرکے من مانی کی جائے تو دونوں صورتوں میں عدالت کے ذریعے سے اس ظلم وجبر کی تلافی کی جاسکتی ہے۔ یہ ہے اسلام کی صحیح تعبیر وتشریح۔
اس تفصیل سے واضح ہے کہ لڑکی کے مقابلے میں والدین کاحق مقدم اورفائق ہے اور تمام ائمہ اسلام اسی بات کےقائل ہیں۔ کوئی بھی امام لڑکی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ والدین کی اجازت اور رضامندی کونظرانداز کرکے از خود نکاح کرلے۔ فقہ حنفی سے اس کا جو جواز ثابت کیا جاتا ہے، وہ صحیح نہیں ہے۔ فقہ حنفی میں بیان کردہ جواز کو اس کے پورے سیاق وسباق میں دیکھا جائے توفقہ حنفی سے اس کا مطلق جواز ثابت نہیں ہوتا۔
اول: تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد رشید امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ جنہیں صاحبین کہا جاتا ہے، فرماتےہیں کہ عاقل وبالغ لڑکی بھی ولی کی رضامندی اور اجازت کے بغیر نکاح نہیں کرسکتی، البتہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ایسا کرنا جائز ہے لیکن امام صاحب کے نزدیک بالغ لڑکی کا یہ اختیار مشروط ہے کفوکے تقاضوں کو ملحوظ رکھنے کے ساتھ۔ اگر کسی لڑکی نے ولی کی اجازت کے بغیر’’غیرکفو‘‘میں نکاح کرلیا تو ولی کو نہ صرف اعتراض کرنے کا بلکہ تنسیخ نکاح کے لئے عدالتی چارہ جوئی کاحق حاصل ہے۔
ثانیاً: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ایک شاگرد حضرت حسن بن زیاد رحمہ اللہ کی روایت کی رو سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہ مسلک ہے کہ اگرلڑکی ولی کی اجازت کے بغیر’’ غیرکفو ‘‘سے