کتاب: حقوق نسواں اور حقوق مرداں - صفحہ 87
اطاعت وفرماں برداری اور ان کےساتھ حسن سلوک کرنے کا ہے، قرآن کریم میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ والدین کے سامنے اگر کوئی بات تمہیں ناگوار گزرے تو اُف (اونہہ) تک نہ کہو، اس سے زیادہ والدین کے ادب واحترام اور اطاعت وفرماں برداری کی تاکید کیا ہوسکتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ والدین کو سخت تاکید ہے کہ وہ لڑکی کی رضامندی کے بغیر اس کانکاح نہ کریں حتیٰ کہ اگرکوئی باپ لڑکی کی رضامندی کے بغیر نکاح کردیتا ہے اور لڑکی کو وہ پسند نہ ہو تو شریعت نے لڑکی کو حق دیا ہے کہ وہ یہ نکاح فسخ کروالے لیکن دوسری طرف لڑکی کو قطعاً یہ حق نہیں دیا گیا ہے کہ وہ ولی کی اجازت کے بغیرجہاں چاہے، نکاح کرلے بلکہ اس کے لئے ضروری قرار دیاگیا ہےکہ وہ اپنے ولی(باپ، بھائی، چچاوغیرہ) کی اجازت اور رضامندی ہی سے نکاح کامسئلہ حل کرے۔ اگر وہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گی تو وہ نکاح ہی نہیں ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے: ((لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ)) ’’ولی کے بغیرنکاح نہیں۔ ‘‘ [1] دوسری روایت میں ہے: ((أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهَا، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ)) ’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے۔ اس کانکاح باطل ہے، اس کانکاح باطل ہے۔ [2]
[1] سنن ابی داؤد، النکاح، باب فی الولی، حدیث :2085 [2] سنن ابی داؤد، النکاح، باب فی الولی، حدیث :2083